آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان الگ ہونے جانے والے علاقے نگورنو کاراباخ میں پیر کی صبح دوبارہ جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں، جس کا الزام دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر عائد کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آرمینیا کے فوجی حکام نے پیر کو کہا ہے کہ نگورنو کاراباخ کے دارالحکومت سٹیپاناکرٹ پر میزائلوں سے حملہ کیا گیا۔ یہ علاقہ آذربائیجان میں واقع ہے لیکن اس پر آرمینیا کی فورسز کا کنٹرول ہے، جنہیں 1994 میں ہونے والی علیحدگی کی جنگ ختم ہونے کے بعد سے آرمینیا کی حمایت حاصل ہے۔
آرمینیا کی وزارت دفاع کی خاتون ترجمان شوشان سٹیپانین نے فیس بک پر کہا کہ لڑائی والے علاقے میں مختلف شدت کی جھڑپیں جاری ہیں۔
اس کے جواب میں آذربائیجانی وزات دفاع نے آرمینیا کی فوج پر ترتار، بردہ اور بیلاگن کے قصبوں پر گولہ باری کا الزام لگایا ہے۔ حکام نے کہا ہے کہ آذربائیجان کا دوسرا سب سے بڑا شہر گنجہ، جو لڑائی والے علاقے سے بہت دور ہے، پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں۔
آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 27 ستمبر کو لڑائی کا آغاز ہوا تھا جس میں اب تک درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ نگورنو کاراباخ کے علاقے پر دہائیوں کی لڑائی میں یہ سب سے بڑی جنگ ہے۔ دونوں فریقین نے لڑائی کو مخصوص علاقے سے باہر تک لے جانے کا الزام لگایا ہے۔
نگورنو کاراباخ کے حکام نے کہا ہے کہ اب تک ان کے تقریباً 200 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ لڑائی میں 18 شہری بھی مارے جا چکے ہیں جب کہ 90 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ آذربائیجان نے فوجیوں کے جانی نقصان کی تفصیل نہیں دی تاہم بتایا ہے کہ لڑائی میں اس کے 24 شہری مارے گئے اور 121 زخمی ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق سوویت یونین کے دور میں نگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کے اندر خود مختار علاقہ بنایا گیا تھا۔ اس نے 1991 میں آذربائیجان سے آزادی کا اعلان کیا جس کے تین ماہ بعد سوویت یونین ٹوٹ گئی۔ 1992 میں اس پر تنازع شروع ہوگیا، جس میں ایک اندازے کے مطابق 30 ہزار لوگ ہلاک ہو گئے۔
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ 1994 میں کشیدگی ختم ہو گئی اور آرمینیائی فوج نے نہ صرف نگورنوکاراباخ کا علاقہ اپنے پاس رکھا بلکہ علاقے کی باضابطہ سرحد سے باہر بھی کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔
آذربائیجان کے صدر الہام علیئف کئی بار کہہ چکے ہیں کہ صرف آرمینیا کی فوج کے نگورنو کاراباخ سے نکلنے کے بعد ہی لڑائی بند ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب آرمینیا کے حکام کا دعویٰ ہے کہ لڑائی میں ترکی ملوث ہے اور شام سے جنگجو اس علاقے میں بھیج رہا ہے۔
اس ہفتے کے آغاز میں آرمینیا کے وزیراعظم نکول پشینیئن نے کہا تھا کہ 'ترکی کی جنوبی قفقاز سے بے دخلی کی صورت میں جنگ بندی ہو سکتی ہے۔'