فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کی صدارت کے لیے کھڑے ہونے والے اردن کے شہزادہ علی بن الحسین نے جمعرات کو فٹبال کی گورننگ باڈی سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں فٹبال فیڈریشن کے خلاف خواتین کی ٹیم کے اراکین کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے پر سختی سے نمٹے۔
فیفا نے رواں ہفتہ افغان فٹبال فیڈریشن (اے ایف ایف) کے صدر کریم الدین کریم کی معطلی اخلاقیات کمیشن کی تحقیقاتی کمیٹی کی شفارش پر مزید 90 دن کے لیے بڑھا دی ہے۔
پرنس علی نے کہا کہ ’یہ توسیع اضافی تاخیر ہے اور صدر کے خلاف تحقیقات کو پہلی ترجیح بنایا جانا چاہیے۔‘
اردن کے شہزادہ علی بن الحسین آج کل قدرے مختلف مہم میں مصروف ہیں۔
علی اردن کی فٹبال ایسوسی ایشن کے صدر اور مغربی ایشیائی فٹبال فیڈریشن کے بانی ہیں۔
انہوں نے ایشین فٹبال ڈویلپمنٹ پروگرام، ایک غیرسرکاری تنظیم جسے اب ایسوسی ایشن فٹبال ڈویلپمنٹ پروگرام (اے ایف ڈی پی) کا نام دیا گیا ہے کے ذریعے کھیلوں کے ذریعے اچھا کام کرنے کی ٹھانی ہے۔
یہ تنظیم دنیا بھر میں نوجوانوں کی ترقی اور لوگوں کی مدد کرتی ہے لیکن آنے والے عالمی کپ، اور افغان فٹبال اہلکاروں نے جنہوں نے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کا جنسی استحصال کیا، نے اے ایف ڈی پی کے خواتین کے ساتھ کام کو اہم بنا دیا ہے۔
علی نے اردن میں خواتین کی فٹبال کے فروغ کے لیے کام کیا جس میں بین الاقوامی مقابلوں اور میچوں کا انعقاد شامل ہے۔
علی کا کہنا تھا کہ افغان ٹیم اردن کی قومی ٹیم سے دوستانہ میچ کھیلنے آئی تھی۔
’ان میں سے چند افغان خواتین یورپ میں پناہ گزین تھیں۔ ان میں سے چند ان کے پاس آئیں اور انہیں افغان فٹبال کے اندر کی بدسلوکی اور ریپ کی درد ناک کہانیاں سنائیں۔‘
’وہ بہت بہادر ہیں کیونکہ جس معاشرے سے وہ آئیں وہاں ایسے واقعات میں متاثرہ فرد ہی ذمہ دار مانا جاتا ہے۔ اس میں ان کے خاندان کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔‘
فٹبال حکام کی جانب سے اس پر ردعمل کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا۔
’ہمیں معلوم ہے کہ بدسلوکی فٹبال فیڈریشن کی اعلیٰ شخصیات کی جانب سے ہو رہی تھی۔‘
’وہ ایشین فٹبال کنفیڈریشن اور فیفا تک گئیں۔ کنفیڈریشن کی جانب سے ردعمل تھا: ’اگر آپ کے پاس شکایت ہے، تو صدر کو اسے ہمارے پاس لانا چاہیے۔ صدر تو خود وہ شخص ہے جس پر الزام ہے۔‘ علی بہت محتاط ہیں اور کم ہی ان لوگوں کا نام لیتے ہیں جن پر وہ تنقید کر رہے ہوتے ہیں۔
زبان بندی
’افغان فٹبال فیڈریشن نے انہیں دھمکی دی اور ان کے بولنے پر پابندی عائد کر دی۔ یہ بہت مشکل صورتحال ہے کیونکہ اگر یہ بات یورپ میں ہوئی ہوتی تو اس پر کافی واویلہ ہو چکا ہوتا۔‘
حالیہ دنوں میں عالمی کھیلوں میں جنسی زیادتی کے کئی واقعات برطانیہ، امریکہ اور برازیل میں سامنے آئے۔ رواں ہفتے ایک واقعہ کولمبیا میں بھی ہوا لیکن علی کہتے ہیں کہ افغانستان کے کئی پہلو اسے ’بدترین‘ بناتے ہیں۔
’امریکہ اور دیگر ممالک میں حکام کوچ یا عملے کے اراکین کی کارستانیاں چھپا رہے ہوتے ہیں۔ اس واقعے میں دراصل حکام خود ملوث ہیں۔
علی کا کہنا ہے کہ فیفا کو چاہیے کہ وہ خواتین کے کھیل میں زیادہ پیسہ لگائیں کیونکہ فٹبال میں اعلیٰ اختیارات کے حصول میں عورتوں کو زیادہ چیلنج درپیش ہوتے ہیں۔
’مثال کے طور پر ان کا قانون ہے کہ ہر ملک سے ایک نمائندہ فیفا کونسل میں شامل ہو۔ لہذا وہ ممالک خواتین فٹبال کا تجربہ رکھنے والے ممالک کی نمائندگی نہیں ہے۔‘
انہوں نے تجویز دی کہ فیفا مردوں اور عورتوں کے ورلڈ کپ کو اکٹھا نہیں الگ الگ سپانسرشپ کے لیے پیش کرے۔
’خواتین کے کینیڈا میں ورلڈ کپ سے جو رقم کمائی گئی اس میں سے بہت کم خواتین کو ملی۔ اکثر رقم مردوں کے پاس چلی گئی۔‘
شہزادہ علی نے موجودہ بحران میں ملوث اے ایف ایف کے تمام اہلکاروں پر اے ایف سی ایگزیکٹو کمیٹی کے متوقع انتخابات، یا فیفا اور کسی اور ادارے کے لیے کھڑے ہونے پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ تنازع گذشتہ برس دسمبر میں منظر عام پر برطانیوی اخبار دی گارڈین کی اس رپورٹ کے بعد شروع ہوا جس میں افغانستان کی قومی ٹیم کی ایک رکن خالدہ پوپل نے سابق کھلاڑیوں سے جنسی زیادتی، جان سے مارنے کی دھمکیوں کی تفصیلات اکٹھی کی تھیں۔
کریم نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور ان کا موقف ہے کہ انہیں بغیر کسی ثبوت کے ایک ’سازش‘ کا شکار بنایا جا رہا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی نے اس واقعے پر صدمے کا اظہار کیا تھا