کان کے آلے سے میرا پہلا تعارف راشد چچا تھے۔
جب میں بہت چھوٹا تھا تو ان کے کان سے ایک سفید سی تار نکلتی دیکھتا جو قمیص میں ان کی سائیڈ والی جیب کے اندر جا کے گم ہو جاتی۔ وہی آلہ باقی دنیا کے لیے کب مختصر ہوا نہیں معلوم، مجھے اس ایجاد کا تبھی علم ہوا جب وہ تار ختم ہو گئی اور ایک بٹن برابر آلہ ان کے کان میں ایسا فٹ ہوا جو سامنے سے دیکھنے پہ نظر بھی نہیں آتا تھا۔
پچھلے دنوں جب راشد چچا بیمار ہوئے تو سید ظفر حسن بابو کی لکھی ایک تحریر نظر آئی، پہلے اس کا خلاصہ دیکھیے۔ 'راشد حسین ربانی کی سیاست بھٹو صاحب کی زندگی میں پیپلز پارٹی سے وابستگی کے بعد شروع ہوئی۔ پارٹی کی پہلی تنظیم سازی میں وہ اپنے علاقے کے چئیرمین بنائے گئے۔ جنرل ضیا الحق نے جب بھٹو حکومت کا تخت الٹا تو اس وقت بڑے بڑے نام آمریت کے خوف سے خاموش ہو گئے لیکن ایک نوجوان پاکستان چوک کراچی کی گلیوں سے نکلا اور اس نے عوام کو آمریت کا مکروہ چہرہ دکھایا۔ تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) میں اس نے اپنی مسلسل جدوجہد سے لوگوں میں اس جبر کے خلاف بیداری پیدا کی۔ ظلم و ستم اور تشدد کا ہر حربہ استعمال ہوا، اس نے ہار نہ مانی۔ کئی کیس بنائے گئے، ڈیتھ سیل میں ایک طویل عرصے بند رکھا گیا لیکن پھانسی کا خوف اور نہ ہی کوئی تشدد اسے اپنی وفاداری بدلنے پہ مجبور کر سکا۔ ایک حادثے کے نتیجے میں اسے ہتھکڑیوں سمیت جلاوطن کیا گیا، آمریت کی موت کے بعد وہ بی بی کے ساتھ واپس آیا، اے خدا، پیپلز پارٹی کے اس سپاہی کو مکمل صحت عطا فرما۔'
تین روز قبل راشد چچا کا انتقال ہو گیا۔
عمران خان کے جلسوں میں پلنے والی نسل کے لیے سیاست دانوں کو گالی نکالنا بہت آسان ہے۔ سیاست کیا ہوتی ہے اور سیاست دان کیسا ہوتا ہے یہ ان سے پوچھیے جنہوں نے ضیا دور میں پیپلز پارٹی کا ساتھ نبھایا ہے۔
آئے روز آپ کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جائیں، جیلوں میں بدترین تشدد ہو، جسمانی اذیت اس درجے کی ہو کہ کان سننا چھوڑ جائیں اور ذہنی اذیت ایسی کہ وہ ماں جسے چھوٹے بیٹے کی شکل دیکھے بغیر نیند نہ آتی ہو وہ کئی سال اس کا چہرہ دیکھنے کی امید میں روتی رہے، پھر اس کی بینائی چلی جائے اور بیٹے کے وطن واپس آنے کی آس کوئی نہ ہو۔
1970 کے آس پاس کا وقت تھا جب راشد ربانی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ عام کارکن تھے، جیالے تھے، دفن ہوئے تو بھی پارٹی کا جھنڈا جنازے پر تھا۔ میرے ماموں اور ان کے بہت سے دوست انہیں چئیرمین کہتے تھے۔ کل ماموں سے پوچھا تو کہنے لگے کہ پارٹی کی تنظیم سازی میں جب انہیں علاقہ چئیرمین (وارڈ صدر) بنایا گیا تو بس تب سے ہم دوستوں نے انہیں چئیرمین کہنا شروع کر دیا، یہ لقب ایسا مشہور ہوا کہ سعید غنی نے اپنی تعزیتی ٹوئیٹ میں بھی انہیں چئیرمین کہہ کر مخاطب کیا تھا۔
ماموں کی ہی زبانی مزید پڑھیے 'جب وہ سیاست میں آیا تو غریب کسی دواؤں کی کمپنی میں نوکری کرتا تھا، وہ بھی چھوڑنی پڑ گئی۔ چوبیس گھنٹے ورکروں میں ہوتا تھا۔ پاکستان چوک میں ایک ہوٹل ہوتا تھا ماما ہوٹل، بس وہیں بیٹھا ہے، کارکن آ رہے ہیں جا رہے ہیں، سو سو چائے کا بل بھی ہم سب نے مل کے دیا ہے وہاں پر۔ ایک سکوٹر ہوتا تھا صادق بھائی کا (راشد ربانی کے بڑے بھائی)، وہ بس راشد کا ہی ہو گیا تھا۔ ہوٹل پہ وہ سکوٹر بھی کھڑا ہوتا تھا۔ جس ورکر کو کہیں جانا ہوتا وہ بس اتنا کہتا کہ بھائی جان میں ذرا کام سے جا رہا ہوں، کک ماری اور لے گیا۔ اس زمانے میں ابھی مارکر اتنے عام نہیں ہوتے تھے تو اس سکوٹر پہ میں نے کالے پینٹ سے بڑا بڑا 'عوامی سکوٹر' لکھ دیا تھا۔ اسی سکوٹر پہ میں نے بھی 73 میں پہلی مرتبہ ڈرائیونگ سیکھی۔ کمال یہ ہے کہ پارٹی کی ہائی کمان اس وقت بھی یہ جانتی تھی کہ بندہ کس قدر جیالا اور بے لوث ہے۔ پچاس سال اس نے پارٹی کو دیے اور بھٹو خاندان نے اسے عزت بھی بہت دی۔ یار تم اندازہ کرو، پارٹی قیادت ہمیشہ اس کا کس قدر مان رکھتی تھی کہ جب والد کی وفات ہوئی تو بی بی خود پاکستان چوک آئیں، چوتھی منزل پہ چھیانوے سیڑھیاں چڑھ کر اس کے فلیٹ پہ گئیں اور تعزیت کی۔'
ایم کیو ایم والے ان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ ضیا دور میں ایک ٹائم ایسا بھی تھا جب وہ اور الطاف حسین لانڈھی جیل کے ایک ہی سیل میں بند تھے، شاید اس وقت کی پاسداری ہو یا کچھ بھی، پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم سے مذاکرات کرنے ہوتے تو ان کا نام سرفہرست رہتا تھا۔
جلا وطنی سے واپسی کے بعد بھی ان کی آزمائشیں ختم نہیں ہوئیں۔ اپنے ہی ملک میں تھے لیکن پاسپورٹ نہیں تھا۔ ایک طویل عرصہ کراچی میں بھی انڈرگراؤنڈ رہے۔ گرمیاں تھیں، طویل دن تھا، میری عمر چھ سات سال ہو گی، اتنا یاد ہے کہ راشد چچا کو کھانا پہنچانے گھر سے جو لوگ گئے تھے ان کے ساتھ میں بھی تھا۔ راستہ طویل تھا، دھوپ شدید تھی، واپسی سہہ پہر کو ہوئی، بس دھندلے سے نقش ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو سینیٹر رہے، سٹیل مل کا چئیرمین بنایا گیا، نیشنل بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شمولیت سمیت بہت سے انتطامی عہدے ملے مگر ایک آدمی جو اپنی اصل میں پارٹی کارکن تھا وہ آخری وقت تک کارکنوں میں ہی رہا۔ آپ کسی سے نہیں سنیں گے کہ عہدے ملے تو ان کے رویے میں کوئی بدلاؤ آیا ہو۔ بختیار ماموں بتاتے ہیں کہ 'جس طرح میں نے اسے اپنی سیاست کے شروع میں دیکھا تھا، ابھی چند ماہ پہلے تک اس کا وہی حال تھا۔ سو کے اٹھا تو پہلی بات وہی ہوتی تھی کہ یار ادھر دفتر میں پارٹی کارکن انتظار کر رہے ہوں گے۔ حالانکہ اب وہ پیپلز پارٹی سندھ کا نائب صدر تھا، وزیر اعلی کا مشیر تھا۔'
راشد ربانی تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے دو بڑے بھائیوں کی شادیاں میری والدہ کی بہنوں سے ہوئیں۔ میری شادی اپنی خالہ کے یہاں ہوئی، تو یوں وہ میری شریک حیات کے چچا، میرے خالوؤں کے بھائی اور میرے چچا سسر بھی تھے۔ یہ تفصیلات اس لیے واضح کر دیں کہ بے تکلف لکھے جانا اور رشتے کی نوعیت نہ بتانا شاید چند پڑھنے والوں کے لیے کوفت کا باعث ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جو عادت مجھے راشد چچا کی سب سے زیادہ پسند تھی وہ ان کا فالو اپ تھا۔ آپ فون کریں اور وہ نہ اٹھائیں، یہ کبھی نہیں ہوتا تھا۔ اگر کسی میٹنگ میں ہوں گے تو باری باری مس ہونے والے سب نمبروں پہ فون کیا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ مسئلہ کیا ہے۔ پی ٹی سی ایل تھا، تب بھی، موبائل فون آ گیا تو بھی، راشد چچا کا فون چوبیس گھنٹے بجتا تھا اور اسی طرح اٹھایا بھی جاتا تھا۔
اپنی زندگی میں کسی پروٹوکول گاڑی کے ساتھ میں نے دو سفر کیے، دونوں راشد چچا کی وجہ سے ہی تھے۔ ایک بار ہم لوگ سب سیہون شریف گئے تھے تو وہ بھی ساتھ تھے، تب ان کے ہمراہ چوبیس گھنٹے سیکیورٹی پروٹوکول گاڑیاں ہوتی تھیں؛ اور دوسری مرتبہ میری شادی تھی۔ گھر سے مسلم جم خانے تک ان کے ساتھ گیا، تو بھی آگے پیچھے وہی سائرن کی آوازیں تھیں۔ ایسے میں آدمی اپنے اندر کس قدر ہوا بھری محسوس کرتا ہے اور راشد چچا کس قدر ڈاؤن ٹو ارتھ رہتے تھے، ٹھیک سے اس بات کا اندازہ مجھے اس دن ہوا۔
سادہ طبیعت، سونف خوشبو الائچی کا پان، کان کا آلہ، چہرے پہ مسکراہٹ، عام سا شلوار قمیص، عمدہ پرفیوم، چست مزاج اور تیز چال، میرے لیے راشد چچا بس ایسے تھے۔
یہ سال ہمارے ہاتھوں سے اور کس کس کو چھینے گا خدا جانے، بس ایک عجیب دکھ ہے جو ختم نہیں ہو رہا۔ راشد چچا کے ایک بیٹی ہے اور میری بھی اکلوتی اولاد ایک ہی ہے۔ خدا سب بیٹیوں کے باپ سلامت رکھے، نہ رہیں تو انہیں اس قدر حوصلہ دے کہ وہ اچانک ہونے والے اتنے بڑے نقصان سے سنبھل سکیں، زندگی میں کامیاب آگے بڑھتی رہیں اور باپ کو ہر قدم پہ یاد کر کے دلگیر نہ ہوں۔ بیٹیو، تمہارے باپ کس دل سے مرتے ہیں، یہ وہی جانتے ہیں۔