یہ دوسرا سال ہے کہ رانا دلمیر شہدائے کارساز کی برسی میں شریک نہیں ہوں گے۔ یہ دوسرا سال ہی ہے کہ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقارعلی بھٹو کی برسیوں میں بھی شرکت نہیں کی۔
اس لیے نہیں کی کہ وہ اب خود ان کے پاس جا چکے ہیں۔ شاید انہوں نے وہاں پہنچ کر جئے بھٹو کا نعرہ بھی لگایا ہوگا اور بی بی کو دیکھ کر یہ بھی کہا ہوگا کہ میں تو پہلے کہتا تھا، بی بی زندہ ہے اور پھر انہیں وہاں کارساز کے بہت سے کشتگان بھی ملے ہوں گے جو 18 اکتوبر 2007 کو رزقِ خاک ہوئے تھے۔ وہ جو اپنی قائد کے استقبالیہ جلوس کے ساتھ تھے اور جو اس کے ٹرک کی حفاظت کرتے ہوئے دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے۔ وہ سب جانثار جنہوں نے 18 اکتوبر کو اپنی قائد کے لیے انسانی ڈھال بنا رکھی تھی اور جن کی شہادت کے بعد ان کی قائد مزید دو ماہ اس جہان میں رہی تھیں اور پھر دو ماہ بعد ہی وہ خود بھی ان کے پاس پہنچ گئی تھیں۔
آپ میں سے بہت کم لوگ رانا دلمیر کو جانتے ہوں گے اور جانتے بھی کیسے ہوں وہ لیڈر تو نہیں تھے۔ ایک سیاسی کارکن تھے اور کارکنوں کو تو گم نامی میں ہی رہنا ہوتا ہے اور پھر خاموشی سے رخت سفر باندھنا ہوتا ہے۔ رانا دلمیر کے ساتھ میری کوئی زیادہ شناسائی نہیں تھی۔ دو برس قبل انہی دنوں میں ان کے ساتھ پہلا رابطہ ہوا، پھر 2018 میں کسی تعزیتی خبر کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ رانا دلمیر ہمارے درمیان نہیں رہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے ان بہت سے لوگوں میں سے ایک تھے جو 18 اکتوبر2007 کو کار ساز میں ہونے والے قتل عام میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راﺅ ساجد بھی ان کے ساتھ تھے ان دونوں کا تعلق ملتان سے تھا۔ دوسال قبل 18 اکتوبر سے پہلے میں نے ان کشتگان اور زخمیوں کے بارے میں ایک خبر دی تھی جن کا تعلق ملتان یا سرائیکی خطے کے دوسرے شہروں سے تھا۔ اس خبر کی تیاری کے دوران معلوم ہوا کہ راﺅ ساجد اوررانا دلمیر اس دھماکے میں زخمی ہوئے تھے اور کئی روز کراچی میں زیر علاج رہنے کے بعد ملتان واپس آئے تھے۔
راﺅ ساجد سے تو ملاقاتیں مختلف تقریبات اورجلسوں میں ہوتی رہی تھیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دوران وہ کافی متحرک رہے لیکن یہ رانا دلمیر کون تھے؟ ان کے بارے میں مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا۔
پھر راﺅ ساجد سے ہی ان کا فون نمبر حاصل کیا۔ رانا دلمیر قادر پور راں میں رہتے تھے ان کے ساتھ ٹیلیفون پر طویل گفتگو ہوئی۔ انہوں نے 18 اکتوبر 2007 کے دلخراش واقعات بھی سنائے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کا ذکر کیا۔ انہیں پارٹی سے کوئی شکوہ تھا نہ انہوں نے نظر انداز کیے جانے کا گلہ کیا۔ بس انہیں دکھ تھا کہ بے نظیر بھٹو کے قاتل آزاد کیوں پھر رہے ہیں۔
مجھے کبھی کبھار ان کا فون موصول ہوتا تھا۔ وہ بے تکلفی کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ وہ کل اور آج کی سیاست کا موازنہ کرتے تھے اور پیپلز پارٹی کے زوال پر ملال کا اظہار کرتے تھے۔ آج کار ساز قتل عام کے دن پر دلمیر صاحب یاد آ گئے۔ وہ آئندہ بھی اسی روز یاد آیا کریں گے۔
اب آپ کو اسی دن کی کہانی سناتا ہوں جو ایک غیرمعمولی دن تھا۔ پاکستان کی تاریخ کے ایسے بہت سے دنوں میں سے ایک کہ جو امید کی کرن کے ساتھ طلوع ہوتے ہیں۔ اس روز پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم بے نظیربھٹو طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس آ رہی تھیں۔
تاریخ دوسری مرتبہ اپنے آپ کو دہرانے جا رہی تھی۔ پہلی مرتبہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد لندن سے وطن واپس آئی تھیں۔
دس اپریل 1986 کو لاہور ایئرپورٹ پر ان کا والہانہ استقبال ہوا تھا۔ لاکھوں افراد اپنی قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ملک بھر سے لاہور پہنچ گئے تھے۔ 21 برس بعد پھر وہی منظر تھا۔ مقام اس مرتبہ لاہور نہیں کراچی تھا۔ عہد ایک اور فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کا تھا اور بے نظیر بھٹو آٹھ سالہ جلاوطنی کے بعد دبئی سے کراچی پہنچ رہی تھیں۔
انتخابات کا اعلان ہو چکا تھا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو انتخابی مہم کے دوران شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ جلسوں میں بم دھماکے ہو رہے تھے اور روشن خیال جماعتوں کو انتخابات سے باہر رکھنے کے لیے خودکش بمبار میدان میں آ چکے تھے۔
عام تاثر یہ تھا کہ 1986 اور2007 کے پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تجزیہ نگار یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت کم ہو چکی ہے۔ 18 اکتوبر سے پہلے ہی ملک بھر سے پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے قافلے کراچی پہنچنا شروع ہوگئے۔ 11 اکتوبر کی رات سے ہی ٹی وی چینلوں نے استقبالیہ جلسوں اور کراچی کی شاہراہوں کی براہ راست کوریج شروع کر دی۔
دنیا بھر میں لوگوں کی نظریں ٹی وی سکرینوں پر تھیں۔ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کا لمحہ لمحہ ٹیلی کاسٹ کیا جا رہا تھا۔ دبئی میں روانگی سے قبل بے نظیر بھٹو نے بچوں سے ملاقات کی اور آفات سے تحفظ کی ضمانت سمجھا جانے والا امام ضامن بازو پر باندھ کر ایئر پورٹ روانہ ہوئیں۔ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسی طیارے میں موجود تھی جو بے نظیر بھٹو کو وطن واپس لا رہا تھا۔
ایک ایک پل دکھایا جا رہا تھا۔ راستے میں انٹرویوز کیے جا رہے تھے اور صحافی تجزیے دے رہے تھے۔ خود بے نظیر بھٹو کو بھی یقین نہیں تھا کہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں ان کے استقبال کے لیے آئیں گے۔ لینڈنگ سے پہلے طیارہ جب کراچی کی سڑکوں کے اوپر سے گزرا تو لوگوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر بے نظیر بھٹو کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ طیارہ کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔ ایئرپورٹ سے باہر آنے میں بے نظیر بھٹو کو کئی گھنٹے لگ گئے۔ انہیں جلسہ گاہ تک لے جانے کے لیے ایک بلٹ پروف ٹرک تیار کیا گیا تھا جو پیپلزپارٹی کے پرچموں سے آراستہ تھا۔ ٹرک نے سفر کا آغاز کیا۔ رقص کرتے، ڈھول بجاتے، پیپلزپارٹی کے جھنڈے لہراتے کارکن ٹرک کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
کارکنوں کے ایک کفن پوش گروپ نے بے نظیر بھٹو کے ٹرک کو حصار میں لے رکھا تھا۔ ان کا تعلق پیپلزپارٹی کی مختلف تنظیموں سے تھا اور یہ کارکن ’جانثارانِ بے نظیر بھٹو‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہ فورس بے نظیر بھٹو کی حفاظت کے لیے تیار کی گئی تھی اور اس جلوس میں وہ اپنی قائد کے لیے انسانی ڈھال کا کردار ادا کر رہے تھے۔
پھر کارساز کے پاس وہی ہوا جس کا دھڑکا تھا اور جس خدشے کا بار بار اظہار کیا جا رہا تھا۔ ایک بجے شب رقص کرتے کارکنوں کے درمیان موت کا رقص بھی شروع ہو گیا۔ یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے۔177 کارکن جان کی بازی ہار گئے اور400 سے زیادہ رخمی ہو گئے۔ کشتگان اور زخمیوں میں بڑی تعداد ان جانثاروں کی تھی جو بے نظیر کے ٹرک کے گرد ڈھال بن گئے تھے۔
بے نظیر بھٹو اس سانحے میں محفوظ رہیں۔ جلسہ گاہ کی طرف جانے والوں کو ایمبولینسوں کے ذریعے ہسپتال بھیج دیا گیا۔ یہ ایک پیغام تھا بے نظیر بھٹو کے لیے، یہ انتباہ تھا کہ وہ الیکشن سے دور ہو جائیں۔ لیکن بھٹو کی بیٹی نے ڈرنے کی بجائے انتخابی مہم جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ دو روز بعد ہی وہ سکیورٹی کی پروا کیے بغیر زخمی کارکنوں کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچ گئیں۔
بے نظیر بھٹو نے اگلے روز پریس کانفرنس میں کہا کہ انتظامیہ انہیں سکیورٹی دینے میں ناکام ہو گئی ہے۔ انہوں نے غیرملکی ماہرین سے اس سانحے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا مگر وزیراعظم شوکت عزیز نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔ حکومت کی جانب سے مشتبہ حملہ آور کا خاکہ بھی جاری کیا گیا مگر بعدازاں تحقیقات آگے نہ بڑھ سکیں۔
اس سوال کا جواب بھی معلوم نہ ہوسکا کہ جلوس کے دوران سٹریٹ لائٹس کیوں بند کر دی گئی تھیں۔ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کے نام خط میں نہ صرف یہ کہ اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا بلکہ تین افراد کو نامزد بھی کر دیا۔
خط میں کہا گیا تھا کہ سانحہ کارساز میں وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بریگیڈیئر اعجاز شاہ ملوث ہیں۔ اس خط میں بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کو ملزم نامزد نہیں کیا تھا اور شاید اس لیے نہیں کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں یہ تحقیقات ممکن ہی نہ ہوتیں۔
یا شاید اس لیے کہ پرویز مشرف کو تو انہوں نے اپنے قتل کا ملزم نامزد کرنا تھا۔ کئی برس بیت گئے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنا پانچ سالہ اقتدار گزار کے رخصت بھی ہو گئی مگر اس سانحے کے مجرموں کا سراغ نہیں مل سکا۔ جنہیں بے نظیر بھٹو نے نامزد کیا تھا ان سے بھی پوچھ گچھ نہ ہوئی، پرویز الٰہی کی ق لیگ کو کچھ عرصہ تک کارکن قاتل لیگ کہتے رہے لیکن جب قیادت نے ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں ق لیگ سے اتحاد کر لیا تو کارکن بھی خاموش ہوگئے۔
انہیں خاموش ہی ہوجانا چاہیے تھا۔ طاقتور لوگ ہر دور میں طاقتور ہی ہوتے ہیں۔ جیسے چوہدری پرویز الہی اور جیسے بریگیڈیٹر اعجازشاہ۔ یہ دونوں شخصیات آج بھی طاقت کی علامت ہیں۔
باقی رہے رانا دلمیر تو وہ اب سوال کرنے کے لیے موجود نہیں، لیکن اگر ہوتے تو آج یہ سوال ضرور اٹھاتے کہ اس کیس کی تحقیقات کیا ہوئیں اور بےنظیر بھٹو نے جن لوگوں کو نامزد کیا تھا تو کیا غلط کیا تھا؟