راہباؤں کا ایک گروپ (کانوینٹ کو انٹرنیشنل کینابس) بھنگ کی چھوٹی کیاریاں بنانے کے بعد سے ہر سال ساڑھے آٹھ لاکھ پاؤنڈز تک کما رہی ہیں۔
60 سالہ سسٹر کیٹ میوسین نے 2011 میں کیلیفورنیا کی مرسیڈ کاؤنٹی میں صرف 12 پودوں سے سسٹرز آف دا ویلی نامی ادارے کا آغاز کیا۔
آج ان کا یہ کاروبار پھیل چکا ہے اور راہباؤں کی برادری میں ادویاتی بھنگ کی سلطنت مزید بڑھنے کی امیدیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
راہبائیں مرگی سے لے کر سرطان تک کئی بیماریوں کے علاج کے لیے بھنگ کی مدد سے بنائی اپنی مصنوعات جن میں مرہم، تیل شامل ہے کا استعمال کرتی ہیں اور ان کے مطابق وہ اب تک نشہ آور اشیا کے عادی آٹھ افراد کا علاج کر چکی ہیں۔
سسٹر کیٹ کہتی ہیں کہ ’ہمیں سفید فام افراد کی حکمرانی پسند نہیں۔ کھیتی باڑی کرنے والے افراد نئے خیالات کو تسلیم کرنے میں کافی سست ہوتے ہیں، بھنگ کے طبی استعمال کے حوالے سے لوگ 1950 کی دہائی میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’نشے کے عادی افراد کا اب تک ہم نے سو فیصد کامیاب اعلاج کیا ہے۔ یقینی طور پر ہمارے پاس زیادہ نمونے نہیں ہیں، ہم نے ان آٹھ افراد پر کام کیا جو یا تو الکوحل، تمباکو یا متھ کے عادی تھے۔‘
سسٹر کیٹ کینابس کی کاشت سے قبل کارپوریٹ ایگزیکٹیو کے طور پر کام کرتی تھیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’یہ صحتیابی کے لیے انتہائی زبردست پودا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’آہستہ آہستہ دنیا اس خیال کو تسلیم کر رہی ہے کہ بھنگ ایک دوا ہے نہ کہ خطرناک نشہ۔‘
دی بریکنگ ہیبٹس ڈاکیومینٹری جو برطانوی ڈائریکٹر راب رائن نے بنایا کہ راہبائیں اپنی ادویاتی بھنگ کی یہ سلطنت پھیلانا چاہتی ہیں۔
سسٹر کیٹ اس بارے میں کہتی ہیں کہ ’ہمارا ارادہ ہے کہ ہر قصبے، صوبے میں اگلے 20 سالوں کے دوران ایسی جگہیں قائم کریں۔‘
’ہم ہالی وڈ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کام کریں گے کیونکہ یہ دنیا کے لیے ایک میگافون سے کم نہیں۔‘
ڈاکیومینٹری بنانے والے راب رائن کہتے ہیں کہ ’نشہ سے دوا‘ تک بھنگ کی صنعت کو تبدیل کرنے کے لیے سسٹر کیٹ کی لڑائی حقیقی اور دل چھو لینے والی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک ایسی خاتون کی کہانی ہے جو مقامی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑی ہوتی ہیں تاکہ کینابس کے حوالے سے قوانین علاج کے بارے میں تبدیل کیے جائیں۔‘