ٹرمپ کے بعد کیا افغان بائیڈن سے امیدیں باندھ سکتے ہیں؟

تجزیہ کاروں کے مطابق ہوسکتا ہے کہ افغان حکومت نے جو بائیڈن سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہوں، تاہم طالبان واضح طور پر چاہتے ہیں کہ ٹرمپ کے وعدے کو پورا کرتے ہوئے غیر ملکی افواج کا انخلا کیا جائے۔

نومبر 2019 میں صدر ٹرمپ کا افغانستان میں بگرام ائیر بیس کا دورہ (اے ایف پی)

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی سے طالبان کی طرف سے تشدد کی نئی لہر سامنے آسکتی ہے، تاہم نو منتخب صدر جو بائیڈن اس باغی گروپ کی طاقت کے غبارے میں سے ہوا نکال سکتے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جو بائیڈن کے حلف اٹھانے کے بعد 15 جنوری تک مزید دو ہزار امریکی فوجی افغانستان سے چلے جائیں گے، جس کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد صرف 2500 رہ جائے گی۔

افغانستان ریسرچ اینڈ ایویلوایشن یونٹ (اے آر ای یو) کے نائب ڈائریکٹر نشانک موٹوانی نے کہا: ’امید یہ ہے کہ امریکہ (بائیڈن کے ماتحت) وہاں سے نکلنے میں جلدی نہیں کرے گا، وہ طالبان پر زیادہ سخت دباؤ ڈالیں گے۔‘

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’انخلا پر زور صدر اشرف غنی یا افغان افواج کی زیادہ مدد نہیں کرتا کیونکہ طالبان جانتے ہیں کہ وہ امریکی فوج کے جانے کے بعد پوری طاقت کے لیے زور ڈال سکتے ہیں۔‘

تاہم بروکنگ انسٹی ٹیوشن کے وانڈا فیلب براؤن نے کہا: ’ابھی بھی جنوری تک فوجیوں کی تعداد کو 2500 تک کم کرنا ایک ایسا اقدام ہے، جس پر بائیڈن انتظامیہ کو اعتراض نہیں ہے۔‘

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’اگر امریکہ کچھ مہینے رہنا چاہتا ہے تو طالبان اسے ہضم کرسکتے ہیں، لیکن اگر وہ مئی 2021 کے بعد بھی اپنی فوج کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کا مزید پانچ سال یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے افغانستان میں رہنا ’اس گروپ کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔‘

دوسری جانب افغان سیاسی تجزیہ کار عطا نوری کے بقول: ’ٹرمپ کی جانب سے یا جو بائیڈن کے ذریعے جاری رکھی جانے والی انخلا کی پالیسی کا میدان جنگ پر خاصا اثر پڑے گا۔‘

انہوں نے کہا: ’یہ بہت غیر ذمہ دارانہ ہے کیونکہ ابھی تک افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم نہیں ہوئی ہے۔‘

اے آر ای یو کے موٹوانی نے کہا کہ مثالی طور پر واشنگٹن ایک چھوٹی لیکن قابل قوت اور انٹیلی جنس اثاثوں کو برقرار رکھے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان اور افغان حکومت کے 12 ستمبر سے قطر میں امن مذاکرات میں مصروف ہونے کے باوجود حالیہ مہینوں میں ملک میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

مذاکرات کے باوجود طالبان نے ملک بھر میں افواج کو نشانہ بناتے ہوئے کارروائیوں کا آغاز کیا، جبکہ افغان حکام کی جانب سے انہیں کابل کے تعلیمی مراکز پر دو وحشیانہ حملوں کا ذمہ دار بھی قرار دیا گیا ہے جس میں درجنوں طلبہ ہلاک ہوئے۔

لیکن صرف خونریزی ہی افغان حکام کو پریشان نہیں کرتی۔

غیرملکی افواج کے انخلا نے بھی دوحہ میں مذاکرات کی میز پر طالبان کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے، جہاں ہفتوں سے امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔

موٹوانی نے کہا: ’طالبان جانتے ہیں کہ امریکی جا رہے ہیں اور ایک کمزور اتحادی کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں جس کے پاس سیاسی اور فوجی اختیارات محدود ہیں۔‘

مذاکرات میں شامل حکومتی مذاکرات کار نے اس پر اتفاق کیا۔ انہوں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فوجیوں کی جلد واپسی پر زور سے مذاکرات کاروں خصوصاً طالبان میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ دنیا افغانستان کو چھوڑ رہی ہے۔‘

’یہ ایک بنیادی وجہ ہوسکتی ہے کہ طالبان کی طرف سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا ہے۔‘

افغان طالبان نے رواں برس فروری میں امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد امن مذاکرات کے آغاز پر اتفاق کیا تھا، جس نے مئی 2021 تک تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار کردی تھی۔

جس کے بدلے میں طالبان نے امریکی افواج پر حملہ نہ کرنے کا وعدہ کیا اور کہا کہ وہ بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں جیسے کہ القاعدہ اور داعش کو بھی ملک میں کارروائیوں سے روکیں گے۔

اگرچہ ہوسکتا ہے کہ افغان حکومت نے بائیڈن سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہوں، تاہم طالبان واضح طور پر چاہتے ہیں کہ ٹرمپ کے وعدے کو پورا کیا جائے۔

اس ماہ کے آغاز میں بائیڈن کی انتخابی فتح پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے طالبان نے کہا تھا کہ موجودہ معاہدہ تنازعے کے خاتمے کے لیے ’سب سے زیادہ معقول اور موثر ذریعہ‘ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا