سب سے پہلے بھارتی زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں وجود رکھنے والی وہ تمام مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں مبارک باد کی مستحق ہیں جو ایک سال کے بدترین لاک ڈاؤن کے باوجود گپکار ڈیکلریشن کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔
ویسے تو نئی دہلی کے لیے جموں و کشمیر میں الحاق ہندوستان کی بات کرنے والے سیاست دان بھی زیادہ قابلِ بھروسہ نہیں رہے۔ شیخ عبداللہ بھی جو پنڈت جواہر لعل نہرو کے وفادار ساتھی تھے، شبہات کی نظر سے دیکھے جاتے رہے۔ یہ وہی شیخ عبداللہ تھے جن کی جماعت نیشنل کانفرنس نے 1947 میں قبائلیوں کے خلاف لڑائی کی اور شیخ عبداللہ نے مذہب کی بنیاد پر بننے والے پاکستان کی بجائے سیکولر بھارت کو ترجیح دی۔ 1953 میں شیخ مرحوم کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کر کے جیل کی کال کوٹھری میں دھکیل دیا گیا۔ اس طرح مسلسل گیارہ سالوں تک وہ جیل میں بند رہے۔
یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
ان کی جگہ غلام محمد بخشی کو انسٹال کیا گیا۔ پچھلے 73 سالوں میں جموں و کشمیر میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ ایک سیاسی لیڈر کو استعمال کرکے مقصد پورا ہونے پر اس کو سائیڈ لائن کردیا اور ان کی جگہ دوسرے کو آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔
5 اگست 2019 کو نئی دہلی کی طرف سے جموں و کشمیر کو آئین ہند میں حاصل خصوصی پوزیشن کو یک جنبش قلم ختم کر دیا گیا۔ ایسا تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ جموں و کشمیر میں وجود رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک چھڑی سے ہانکا گیا، کوئی محمود و ایاز نہیں رہا- سوائے بی جے پی کے ریاستی صدر رویندر رینا کے تمام سیاست دانوں کو بلا تخصیص یا تو ان کے گھروں میں نظر بند کردیا گیا یا جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے اوجھل کر دیا- ستم ظریفی تو یہ کہ جموں و کشمیر کی تمام جیلیں بھرنے کے بعد مختلف جماعتوں کے سیاسی کارکنان کو بیرون ریاست دوسری ریاستوں کی جیلوں میں قید رکھا گیا-
یہ پہلی بار ہوا کہ کوئی لاڈلا نہیں رکھا گیا- سیاسی بات چیت کے تمام راستے بند کر دیئے گئے، گو کہ بعد میں یہ کمی محسوس کرتے ہوئے الطاف بخاری کی قیادت میں اپنی پارٹی نامی سیاسی روبوٹ جماعت بنوائی گئی- اس جماعت کے زیادہ تر لیڈر پی ڈی پی سے آئے ہوئے ہیں۔ جموں و کشمیر کے لوگوں میں یہ جماعت اپنے قدم جمانے میں ناکام رہی ہے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کیے ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ سنیچر یعنی 22 اگست 2020 کو جموں و کشمیر کی مین اسٹریم جماعتوں نے ایک بار پھر گپکار ڈیکلریشن پر عمل کرنے کا عزم کیا ہے۔
گپکار ڈیکلریشن کیا ہے؟
چار اگست 2019 کو نیشنل کانفرنس کے سربراہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ گپکار پر ہند نواز سیاسی جماعتوں کا اجلاس ہوا۔ یہ 70 سالہ تاریخ میں مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کا اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس تھا، جس میں سوائے بھارتیہ جنتا پارٹی کے جموں و کشمیر میں وجود رکھنے والی سبھی سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ اس اجلاس میں سات سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 18 سیاسی رہنما شریک ہوئے۔ اجلاس کے آخر میں اتفاق رائے سے تین نکات کو حتمی شکل دی گئی:
اول: ریاست میں وجود رکھنے والی سب سیاسی جماعتیں ریاست کی خصوصی پہچان، خود مختاری اور ریاست کو حاصل خصوصی درجے کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کے خلاف یکجا ہیں۔
دوئم: دفعہ 370 و 35 اے کو کسی صورت بھی منسوخ نہیں کیا جاسکتا اور مزید یہ کہ ریاست کسی بھی تقسیم کی متحمل نہیں ہو سکتی اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ جموں و کشمیر اور لداخ کے عوام پر چڑھائی کے مترادف ہوگا۔
سوئم: صدر ہند و وزیراعظم ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کو ریاستی و مرکزی آئین کے تحت حاصل کردہ حقوق کی پاسداری یقینی بنائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
4 اگست کو گپکار میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے گھن گرج نے تہلکہ مچا دیا اور اس ڈیکلریشن کے نقطہ نمبر 2 کو جواز بنا کر سب سیاسی رہنماؤں کو یا تو ان کے گھروں میں نظر بند کیا گیا یا جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اس طرح تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ جموں و کشمیر میں ہندوستان کا علم بلند کرنے والے اور الحاق ہندوستان کی بات کرنے والے سبھی رہنماؤں سے بلاامتیاز تمام آزادیاں چھین لی گئیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جماعتیں حقیقت میں اس سمجھوتے پر عمل کر پائیں گی؟ میرے خیال میں گپکار ڈیکلریشن کو اپنا مضبوط سیاسی بیانیہ بنانا ناممکن نہیں ہے۔ ناممکن اس لیے نہیں کیونکہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 والے اقدام سے کوئی بھی طبقہ خواہ اس کا تعلق کسی بھی فکر سے ہو خوش نہیں ہے۔ شروع شروع میں جموں کے اندر کچھ بھولے لوگوں نے 370 کی منسوخی پر بھنگڑے ڈالے تھے لیکن اب ان کو بھی اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ یہ ان کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہوا ہے۔
ان کو اب یہ پورا احساس ہوگیا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کا خاتمہ اگر یوں ہی برقرار رہا تو سب سے پہلے اس سے جموں متاثر ہوگا۔ جموں میں جموں و کشمیر پنھترس پارٹی کھلے عام اس کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ نئی دہلی میں بی جے پی کی مرکزی حکومت کی طرف سے جموں اور کشمیر کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن اب جموں والے بھی اس کو سمجھ چکے ہیں۔
گپکار ڈیکلریشن میں شامل انڈین نیشنل کانگریس و جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس اپنی مضبوط پکڑ رکھتی ہیں، لہٰذا ان کو چاہیے کہ گپکار بیانیے کو احسن اور منظم طریقے سے عوام میں لے جایا جائے۔ ادھر لداخ میں بھی جو کہ 5 اگست کو جموں و کشمیر سے الگ کر دیا تھا، اس ڈیکلریشن کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔
یہاں بھی کانگریس اور نیشنل کانفرنس اپنا فعال کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ ان دونوں جماعتوں بالخصوص کانگرس کے پاس نوانگ رنگزن جوڑا و اصغر کربلائی جیسے لوگ موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جموں و کشمیر اور لداخ کے طول و عرض میں نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ سول سوسائٹیز وعام شہریوں کو بھی گپکار ڈیکلریشن کا حصہ بنایا جائے۔ آرٹیکل 370 و 35 اے کا کیس ابھی سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیرالتوا ہے۔ اگر بہتر حکمت عملی سے لوگوں کو متحرک کیا جائے تو سپریم کورٹ بھی رائے عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے 5 اگست 2019 والے فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
(کالم نگار کا تعلق جموں و کشمیر سے ہے اور وہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں ریسرچ سکالر ہیں)