ساری زندگی خبروں اور خبرسازوں یعنی نیوز میکرز کا پیچھا کرتے گزری ہے، لیکن اس دوران خود کو ہمیشہ ’کیمرے کے پیچھے‘ رکھا اور توجہ خبر کے موضوع پر مرکوز رکھی۔
اس لمبے برسوں کے دوران شاید کبھی ذہن میں نہیں آیا کہ ایک دن میں ایسی رپورٹ بناؤں گا جس کا موضوع میری اپنی ذات ہو گی۔ آج ایسی ہی رپورٹ حاضر ہے۔
کرونا وائرس کی وبا کی مارچ کے وسط تک آمد پر عالمی شور شرابہ بہت تھا، ایک انجانے وائرس کا خوف بہت تھا، ہر جانب اس کے پھیل جانے نے خبر بھی خوب بنائی اور لوگوں نے اس میں دلچسپی بھی بہت لی۔
عام شہری اور پھر صحافی کے لیے دوسری لہر یا فالو اپ شاید خبر نہ رہی۔ اسی وجہ سے پہلی لہر میں احتیاط بھی بہت ہوئی لیکن دوسری بظاہر زیادہ سنگین لہر کو لفٹ نہیں کروائی گئی تو اس نے ایسا دبوچا کہ دو ہفتوں کے لیے گھر پر نظربندی یعنی آئسولیشن کی سزا دلا دی۔
اب تک یہ معمہ حل طلب ہے کہ یہ وائرس لگا کہاں سے اور کیسے؟
جعمہ 13 نومبر کی سہ پہر کو اچانک سے دفتر میں کھانسی نے گھیرے میں لے لیا۔ گھر تک پہنچنے تک جسمانی دردوں نے بھی آ لیا اور سر درد ایسا کہ الا امان الحفیظ۔ درد سر اور باقی جسم الگ نوعیت کے تھے۔ ماضی میں بھی سر درد ہوتے رہے ہیں لیکن یہ بظاہر ان کا زیادہ مشکل روپ تھے۔ بستر پر لیٹا تو کمر میں سے درد کے ہولے جیسے اٹھتے اور پورے جسم میں پھیل جاتے۔ یہ بخار کی علامت تھی۔ گلے میں ایسی خراش اور جلن کہ جیسے آگ لگی ہو۔
دوسرے دن تک اسے عام بخار اور سر درد کی کیٹگری تک محدود رکھا لیکن شام گئے احساس ہونے لگا کہ نہیں بھائی معاملہ کچھ اور ہے۔ بھاگا ٹیسٹ کروانے اسلام آباد کے بلو ایریا۔ پہلے سے ذہن میں واضح نہیں تھا کہ اگر ایسا ہوا تو ناک کی سیدھ میں کہاں جانا چاہیے۔ خیر گھوم گھام کر ایک ٹیسٹ مرکز مل گیا اور نمونے دے دیے۔ 12 گھنٹے کا انتظار تھا جو خرابیِ صحت کی وجہ سے معلوم نہیں ہوئے کب گزرے لیکن پھر اطلاع ملی کہ ’خبر کچھ اچھی نہیں ہے۔‘
دوسرے روز کمر میں درد کی کچھ دنوں سے شکایت کرنے والی بیٹی کا ٹیسٹ بھی مثبت آ گیا۔ ساتھ میں دوسرے کمرے میں بند ہو گئی۔ اس کی دوستوں سے فون پر بات چیت کی آوازیں آتی رہتیں تو دل کو حوصلہ رہتا جب نہیں آتی تھیں تو تشویش ہوتی۔ اس کا اور میرا مکالمہ بھی ہوا کہ اس وائرس کو گھر لے کر کون آیا۔ بغیر کسی ثبوت کے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانا ہی آسان تھا دونوں کے لیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیب کا پروانہ کیا آیا کہ جیسے دو ہفتوں کی قید کی سزا مل گئی۔ گھر والوں نے چہیتے لیپ ٹاپ سمیت میرے زیرِ استعمال اشیا کی ایسی صفائی کی کہ کی بورڈ ہی اڑا دیا۔ کمرے کا ٹی وی کیبل سے جڑا نہیں تھا، لہٰذا یہ سہولت بھی دستیاب نہیں تھی۔ بعد میں احساس ہوا کہ اچھا ہی تھی نہیں تھی۔ نیٹ فلکس پر جو اس عرصے میں دیکھا وہ ارطغرل غازی ہی تھا۔ گھنٹوں کے بعد گھنٹے اور نیٹ فلکس کا بالآخر نوٹس کے کیا آپ ہوش و حواس ٹی وی دیکھ رہے ہیں یا سو چکے ہیں۔ بعض اوقات تو خود بھی شدت سے احساس ہوا کہ اب اسے ختم ہو جانا چاہیے۔ ایک دن تو غصے میں تین قسطیں آگے نکل گیا جس کی وجہ سے احمد یا کمانڈر آئرس کی موت دیکھنے کا شرف نہ ملا۔ سوچا رہ لوں گا اس کے بغیر اگر کرونا نے اجازت دی تو۔
ادویات کے بارے میں آپ ضرور پوچھنا چاہتے ہوں گے لیکن میں زیادہ نہیں بتاؤں گا۔ ہر کسی کے اپنے مخصوص حالات ہوتے ہیں کوئی دوائی کسی کو سوٹ کرتی ہے کوئی کسی کو۔ کسی پر چلے کسی پر نہ۔ لیکن افاقے کے دو اہم اسباب دو پیناڈول اور ایک کھانسی کا شربت کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دونوں نے انتہائی مدد دی۔ گرم مشروبات جیسے کہ یخنی اور جوشاندہ بھی کارآمد رہے۔
بیماری کے چھٹے روز طاقت آئی تو اپنے اور اردگرد کے حالات کے نوٹس لینے شروع کیے۔ گلے کی خراش اور اندر جاری جنگ جیسے مدھم پڑ گئی تھی۔ تازہ ہوا کے لیے کھڑکی کھولی تو دو عدد مکھیاں اندر گھس آئیں۔ سوچا جانوروں کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ انہیں بھی یہ مہلک وائرس لگ سکتا ہے لیکن مکھیوں کی صورت کیا ہے؟ کیا وہ وائرس کو پھیلا سکتی ہیں یا خود متاثر ہوسکتی ہیں؟ ایک پردے پر گھنٹوں چپکی چھپکلی پر نظر پڑی تو سوچا ان کا کیا حال ہے؟
ان حشرات نے کیسا اور کتنا ساتھ دیا اگلی قسط میں ملاحظہ کیجیے گا۔
یہ ویڈیو ڈائری تین اقساط پر مشتمل ہے جس کا پہلا حصہ آج پیش کیا جا رہا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو کے ہارون رشید نے یہ ویڈیوز کرونا سے متاثر ہونے کے بعد قرنطینہ کے دوران ریکارڈ کی تھیں۔ اب وہ صحتیاب ہو چکے ہیں۔