ایسا لگتا ہے فوج کی موجودہ قیادت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ادارے اور عوام کے درمیان خلیج کو بظاہر گہرا کرنا ہے۔ فوج کی قیادت بار بار یہ بھول جاتی ہے کہ ان کے ذمہ ایک اہم ذمہ داری ہے اس کے علاوہ ان کا کوئی اور کام نہیں ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کراچی میں بارش کے بعد فوج شہری انتظام سنبھالنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ جب ہم نے آواز لگائی کہ مارشل لا کی شروعات ہے تو وہ پیچھے ہٹے۔ اس سے پہلے ایک اقتصادی کمیٹی میں فوج کے سربراہ کا نام ڈالا گیا ہم نے پھر شور مچایا کہ یہ فوج کا کام نہیں ہے تو وہ کمیٹی ختم ہوئی۔
اب بھی بہت سے اہم اداروں پر فوجی افسروں کا کنٹرول ہے جس میں نیا پاکستان ہاؤسنگ، سی پی ای سی، واپڈا، اینٹی نارکوٹکس، اور این ڈی ایم اے شامل ہیں- اب اطلاع یہ آئی ہے کہ نیشنل انٹیلی جنس کوارڈینیشن کمیٹی (این آئی سی سی) بنی ہے جس کے سربراہ ڈی جی آئی ایس آئی ہوں گے۔ یہ انتہائی غلط فیصلہ ہے جس سے ریاست کمزور ہو گی۔ اس کی توجیہات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
ہم کوئی علاقائی یا بین الاقومی طاقت نہیں ہیں جس کے دنیا بھر میں مفادات ہوں۔ ہم اس وقت ترقی یافتہ بھی نہیں بلکہ غربت سے لڑتا ہوا ایک ملک ہیں۔ ہماری سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ہمارا اندرونی تحفظ مضبوط ہو اور کوئی بیرونی طاقت اندرونی خلفشار پیدا نہ کر سکے۔
یعنی ہمارے اندرونی تحفظ کے ادارے آئی بی، ایف آئی اے، سی آئی ڈی اور پولیس بہت فعال اور مضبوط ہونے چاہیے۔ آئی ایس آئی کا کام بیرونی انٹیلی جنس اور کاؤنٹر انٹیلی جنس ہے۔ اس لیے اگر این آئی سی سی بنانے کی ضرورت تھی بھی تو اس کا سربراہ وزیر دفاع، وزیر داخلہ یا قومی سلامتی کے مشیر کو ہونا چاہیے تھا۔
ہمارے ملک کی تاریخ میں فوج اور آئی ایس آئی پر بار بار یہ الزام لگا ہے کہ وہ سیاسی عمل اور الیکشن میں مسلسل مداخلت کر رہے ہیں۔ اس وقت بھی پی ڈی ایم کی تحریک اسی بات پر سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے اور احتجاج کر رہی ہے۔ کئی اخبارات اور رپورٹوں میں یہ بات بھی کہی گئی کہ 2014 کے دھرنے کو ناکام بنانے میں سول انٹیلی جنس ادارے آئی بی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی عام ہے کہ پچھلے کئی سال سے آئی ایس آئی اس کوشش میں لگی ہوئی تھی کہ آئی بی کو اپنے زیرے اثر لائے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے ان اقدامات سے پرہیز کیا اور آئی بی کو سول کنٹرول میں رکھا۔ ان تمام معاملات، حالات اور واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی کو این آئی سی سی کا سربراہ بنانا جلتی پر تیل کا کام ہے۔ اس سے حالات بہتر ہونے کی بجائے خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ فیصلہ عوام، سول اداروں اور فوجی اداروں کے درمیان تصادم کو جنم دے گا۔ اگر اس کے باوجود ڈی جی آئی آیس آئی کو اپنی طاقت بڑھانے کا شوق ہے تو ایک حلف نامہ جمع کرائیں کہ آئی ایس آئی 2018 کے الیکشن معاملات میں ملوث نہیں تھی اور اس ادارے میں کوئی سیاسی سیل نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران خان نے ایسا غیر دانش مندانہ فیصلہ کیوں کیا؟ خان کی شخصیت میں انتقام بھی بہت زیادہ ہے۔ خان کو آج تک اس بات کا غصہ ہے کہ آئی بی نے ان کے 2014 کے دھرنے کو ناکام کیا۔ صرف اور صرف ذاتی مفاد میں انہوں نے ایک غلط فیصلہ کیا ہے جس کا نقصان اس ملک کو ہو گا۔
فوج کے سربراہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کو ہر وقت یہ شکوہ رہتا ہے کہ جلسوں میں ان کا نام کیوں لیا جاتا ہے۔ سب ان دونوں سے ڈرتے ہیں۔ کور کمانڈرز بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی رائے دیتے ہیں مگر فیصلہ چیف کا ہے۔ تو پھر لوگ انگلیاں بھی چیف پر ہی اٹھائیں گے۔
عمران خان نے اس وقت این آئی سی سی کا اعلان کر کے اور ڈی جی آئی ایس آئی کو اس کا سربراہ بنا کر ان دونوں افراد اور اداروں کے ساتھ سیاست کی ہے۔ اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو چیف صاحب کسی سے شکوہ نہ کریں نام کیوں لیا جاتا ہے۔
موجودہ نظام اور اس کے ادارے نئے سرے سے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ انشا اللہ قومی سیاسی مذاکرات میں ان تمام معاملات پر بات ہو گی۔ پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے لیے راستہ یہی ہے کہ اپنے میثاق کا اعلان کریں تاکہ نئے عمرانی معاہدے کے لیے ہمارے تجویز کردہ قومی سیاسی مذاکرات شروع ہوں۔