پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپورمیں توہین مذہب کے ایک مبینہ ملزم کی درخواست ضمانت منظور ہونے کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت پر حملہ آور ہونے والے وکلا اور شہریوں کے ایک گروہ کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے پولیس نے کم از کم تین وکلا کو گرفتار کر لیا ہے۔
اس واقعے کے بعد پیر کو ضلعی عدالتوں کے ججوں اورعملے نے ہڑتال کرتے ہوئے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ اسی دوران وکلا کے ایک گروہ نے بھی توہین مذہب کے مبینہ ملزم کی ضمانت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔
مقامی صحافیوں کے مطابق دو طرفہ احتجاج کے باعث میرپور شہر کے بعض علاقوں میں فضا کشیدہ رہی اور ضلعی کچہری سمیت ارد گرد کے کئی علاقوں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات رہی۔
ڈپٹی کمشنر میرپور راجہ طاہر ممتاز نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہفتے کے روز سیشن کورٹ کے احاطے میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرنے والے وکلا میں سے سات کی شناخت ہوگئی ہے اور ان میں سے تین کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ دیگر کی تلاش جاری ہے۔
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میرپور نے وکلا کی گرفتاری کے خلاف کل سے غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال اور عدالتوں کو زبردستی بند کرنے اعلان کر رکھا ہے، تاہم عدالتی ذرائع کے مطابق جوڈیشل افسران اور عدالتی عملے نے اپنی ہڑتال ختم کرتے ہوئے منگل سے عدالتوں میں حاضر ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کے بقول عدالتی احاطے میں سکیورٹی کے ضروری انتظامات کر لیے گئے ہیں۔
اس سے قبل ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے چار ایسے وکلا کی رکنیت بھی معطل کر دی تھی جنہوں نے ایسوسی ایشن کی قرارداد کی 'خلاف ورزی' کرتے ہوئے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار واجد شاہ نامی ملزم کی ضمانت کی درخواست دائر کی تھی۔
2016 میں پاس ہونے والی اس قراردار کے مطابق میرپور کے وکلا کسی ایسے مقدمے میں ملزم کی وکالت نہیں کریں گے جس میں مدعی بھی ایک وکیل ہو۔
45 سالہ واجد شاہ پر الزام ہے کہ انہوں نے 27 اگست کو مبینہ طور پر اپنے وٹس ایپ سٹیٹس پر صحابہ کرام کی شان میں گستاخی پر مبنی مواد پوسٹ کیا۔
واجد شاہ کا تعلق سیالکوٹ کی تحصیل پسرورکے علاقے روپوالی قلعہ احمد آباد سے ہے اور وہ پچھلے کئی سالوں سے میرپور میں نجی انشورنس کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کے خلاف ایک مقامی وکیل ریاض عالم کی مدعیت میں توہین مذہب کی دفعات 295 اے اور 298 اے کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ ریاض عالم کا تعلق مرحوم خادم حسین رضوی کی جماعت تحریک لبیک پاکستان سے بتایا جاتا ہے اور وہ مقامی سطح پر تحریک تحفظ ناموس رسالت نامی تنظیم کے رہنما ہیں۔
ہفتے کے روز ضمانت کی درخواست منظور ہونے سے قبل سول کورٹ اور سیشن کورٹ واجد شاہ کی درخواست ضمانت کئی بار مسترد کر چکی ہے جبکہ ایک سے زائد بار ان کے وکلا کو بار ایسوسی ایشن کے مبینہ دباؤ کے باعث مقدمے سے دستبردار ہونا پڑا۔
جن وکلا کی رکنیت معطل ہوئی تھی، ان میں سید گوہر عباس ایڈوکیٹ، شیر عباس کاظمی ایڈوکیٹ، سید تسلیم عارف اور ابوالحسن ایڈوکیٹ شامل ہیں۔
ان وکلا میں سے ایک سید گوہر عباس نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان پر متعدد مرتبہ یہ دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اس مقدمے میں ملزم کی وکالت نہ کریں کیونکہ اس مقدمے کا مدعی ایک وکیل ہے۔ 'چونکہ ہماری نظر میں یہ دباؤ غیر آئینی تھا اور کسی ملزم کو، چاہے اس کے جرم کی نوعیت کچھ بھی ہو، قانونی مدد حاصل کرنے کے بنیادی حق سے محروم کرنا ایک غیر آئینی عمل ہے۔ تاہم بار ایسوسی ایشن کی رکنیت معطل ہونے کے بعد ہمارے پاس اپنے موکل کی وکالت سے دستبرداری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ اس صورت میں ہم میرپور کی کسی عدالت میں کسی بھی مقدمے کی پیروی نہیں کر سکتے تھے۔'
کیا کسی ملزم کو قانونی معاونت حاصل کرنے یا کسی وکیل کو اپنے موکل کو قانونی مشاورت فراہم کرنے سے روکنا غیر قانونی اور غیر آئینی عمل نہیں؟ اس سوال پر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر مرزا قمرالزمان کا کہنا تھا کہ یہ قرارداد ان کے صدر بننے سے پہلے 2016 میں منظور کی گئی تھی اور اس پر رہنمائی کے لیے انہوں نے آزاد جموں و کشمیر بار کونسل سے رجوع کر رکھا ہے۔ وہاں سے جواب آنے پر ہی اس قراردار کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وکلا کی معطل رکنیتیں بحال کر دی گئی ہیں تاہم ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ وکلا کو 'اجتماعی' اور 'حساس نوعیت' کے حامل معاملات میں احتیاط کرنی چاہیے۔
اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے والے وکلا کا الزام ہے کہ جج نے ملزم کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہونے کے باجود 'جانبداری' کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی ضمانت کی درخواست منظور کی، تاہم ضمانت کے فیصلے کے مطابق ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے مروجہ قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت نے توہین مذہب کے مقدمات کے اندراج کے طریقہ کار میں گذشتہ سال تبدیلی کرتے ہوئے ایسا کوئی بھی مقدمہ درج کرنے سے قبل اس ریجن کے اعلیٰ ترین پولیس افسر ڈی آئی جی اور متعلقہ ضلع کے مفتی امور دین پر مشتمل کمیٹی کی سفارش کو لازمی قرار دیا تھا، تاہم ذرائع کے مطابق واجد شاہ کے خلاف درج مقدمے میں مروجہ قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا۔
سیشن کورٹ سے ضمانت کی منظوری کے باوجود واجد شاہ کی رہائی فوری طور پر ممکن نہیں ہو سکی اور آخری اطلاعات کے مطابق آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے میرپور سرکٹ بینچ نے سیشن کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔
واجد شاہ نامی شخص کے خلاف میرپور میں مقدمہ درج کرنے والے ریاض عالم ایڈوکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ محرم کے دنوں میں 'منظم سازش کے تحت' مذہبی شخصیات کی توہین کی کوشش کی گئی جس کا مقصد ان کے بقول شہر کی پر امن فضا کو خراب کرنا تھا۔
رواں سال عاشورہ کے دنوں میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں توہین مذہب کے کئی مقدمات درج ہوئے، جن میں میرپور میں تین جبکہ کوٹلی اور مظفرآباد میں ایک ایک مقدمہ شامل ہے۔ میرپور کے تین مقدمات میں سے دو کے مقدمات میں ملزمان گرفتار ہیں جبکہ حمزہ نامی ایک ملزم کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ ایران 'فرار' ہونے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
مظفرآباد میں ایک پولیس اہلکار بھی زیر حراست ہے جس کی ایک ویڈیو محرم کے دوران سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں مذہبی شخصیات کے متعلق توہین آمیز الفاظ کیے جا رہے ہیں۔