اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت مکمل ہونے کے بعد عدم حاضری پر انہیں اشتہاری قرار دے دیا، جس کا تحریری فیصلہ کل (بروز جمعرات) جاری کیا جائے گا جبکہ سابق وزیراعظم کے ضامنوں کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 9 دسمبر کو طلب کر لیا گیا۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ نے بدھ کو نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔
آج بھی نواز شریف بذریعہ اشتہار طلبی کے باوجود پیش نہ ہوئے جبکہ عدالت میں اشتہار چسپاں کرنے والے دو افسران کا بیان بطور گواہ قلمبند کرتے ہوئے ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ عدالت شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے آرڈر جاری کرے گی۔
انہوں نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ سے استفسار کیا کہ 'ہمیں آگے کیا کرنا چاہیے؟ دو اپیلیں نواز شریف کی ہیں اور دو نیب کی نواز شریف کے خلاف اپیلیں ہیں۔ سزا بڑھانے کی نیب کی اپیل پر نوٹس جاری ہے جبکہ فلیگ شپ پر نوٹس نہیں ہوا۔اپیلوں پر کیا کیا جانا چاہیے؟'
نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے نواز شریف کی العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز اپیلیں مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ اپیلیں میرٹ پر مسترد کر دی جانی چاہییں جبکہ سابق جج ارشد ملک کے خلاف اپیل میں متفرق درخواست بھی دائر ہے۔'
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ 'آج نہیں لیکن آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کریں اور عدالتی نظیریں پیش کریں کہ اشتہاری ملزم کی اپیل کا کیا کیا جانا چاہیے۔'
نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے جواب دیا کہ 'عدالت کے سامنے سرینڈر نہ کرنے پر نواز شریف کو الگ سے سزا ہو سکتی ہے۔'
جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ 'اگر اس میں سزا ہو سکتی ہے تو اپیلوں میں بھی میرٹ پر فیصلہ ہو سکتا ہے۔ آئندہ ہفتے مریم نواز اور کپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں پر بھی سماعت ہے۔ کیا نواز شریف کی اپیلوں کو بھی انہی اپیلوں کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کر دیں؟'
جہانزیب بھروانہ نے جواب دیا کہ 'مریم نواز اور کیپٹن ریٹارڈ صفدر کی اپیلوں کا میرٹ بالکل مختلف ہے۔'
جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ 'ایک ہی کیس میں فیصلہ ہے، دونوں میں کیس تو پورا کھلے گا۔ اس عدالت نے جج ارشد ملک کا کنڈکٹ بھی تو دیکھنا ہے۔'
نیب پراسیکیوشن نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف نے پانچ گواہ پیش کرنے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ دوسری درخواست ناصر بٹ نے دائر کر رکھی ہے اور وہ بھی اشتہاری ملزم ہیں۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 'جج ارشد ملک نے بھی ایک بیان حلفی دیا تھا جسے ہم نے انتظامی اختیارات میں ریکارڈ کا حصہ بنا دیا تھا۔ آئندہ سماعت پر عدالت کو بتائیں کہ پہلے متفرق درخواست کو دیکھنا ہے یا اپیلوں کو۔'
تین گواہوں کے بیان قلمبند
دوران سماعت دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر یورپ مبشر خان نے بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ 'میں نے اس عدالت سے جاری نواز شریف کے اشتہارات وصول کیے اور انہیں لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کو بھیجا۔ پاکستانی ہائی کمیشن نے 9 نومبر کو دفتر خارجہ کو جواب دیا۔ رائل میل کے ذریعے نواز شریف کو اشتہارات کی تعمیل کے حوالے سے بتایا گیا تھا جبکہ 30 نومبر کو رائل میل کے ذریعے اشتہارات کی تعمیل کی تصدیق شدہ کاپی بھی موصول ہوئی تھی۔'
ایف آئی اے کے افسر اعجاز احمد نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی سربراہی میں ایف آئی اے پنجاب کی جانب سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی، جس نے نواز شریف کے اشتہارات کی جاتی امراء اور ماڈل ٹاؤن لاہور میں تعمیل کروائی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اعجاز احمد نے بتایا کہ 'ٹیم جب ماڈل ٹاؤن میں واقع نواز شریف کے گھر گئی تو وہاں سکیورٹی سٹاف موجود تھا۔ نواز شریف کے اشتہارات سے متعلق سکیورٹی سٹاف کو آگاہ کیا گیا اور بلند آواز میں پکارا گیا۔ اسی روز ٹیم نواز شریف کے جاتی امراء والے گھر بھی پہنچی اور وہی کارروائی دہرائی گئی۔ ایف آئی اے ٹیم نے کارروائی کے دوران تصاویر بھی بنائیں جو ریکارڈ کا حصہ بنا دی گئی ہیں۔'
اسی طرح ایف آئی اے کے دوسرے افسر طارق مسعود نے بھی عدالت کی جانب سے جاری کردہ اشتہار کی تعمیل پر بطور گواہ بیان ریکارڈ کرایا۔
واضح رہے کہ ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزاؤں کے خلاف نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے اپیلیں دائر کیں تھیں۔ بعد ازاں خرابی صحت کی بنیاد پر گذشتہ سال عدالت نے نواز شریف کو چار ہفتوں کی ضمانت دی تھی تاکہ وہ لندن میں اپنا علاج کرا سکیں لیکن سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود وہ واپس نہ آئے۔
رواں برس عدالت میں پیش نہ ہونے پر نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے، جن کی تعمیل کے بعد مجرم کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے اشتہار اور نوٹس چسپاں کرائے لیکن اس کے باوجود نواز شریف عدالت میں پیش نہ ہوئے۔
آج سماعت مکمل ہونے کے بعد شام سات بجکر دس منٹ پر عدالتی عملے نے زبانی حکم نامے سے آگاہ کیا کہ عدالت نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے سابق وزیراعظم کے ضامنوں کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 9 دسمبر کو طلب کر لیا ہے جبکہ نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا تحریری حکم نامہ کل (بروز جمعرات) جاری کیا جائے گا۔