وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی جانب سے حکومت مخالف تحریک چلانے کے اعلان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'لیڈر کے بغیر کون سی تحریک ہوتی ہے، نواز شریف خود شرم کریں اور واپس آ جائیں۔'
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد اور وفاقی دارالحکومت میں بڑھتے ہوئے جرائم سے متعلق کیسز میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں شہزاد اکبر نے مسلم لیگ ن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا: 'دھرنے دھرنے میں فرق ہوتا ہے۔ ایک دھرنا لندن سے سکائپ پر ہونا ہے جس سے کچھ نہیں نکلے گا اور ایک وہ دھرنا تھا جو 126 دن عمران خان نے کنٹینر پر دیا تھا۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'نواز شریف کی صحت کی بنیاد پر انہیں ریلیف دیا گیا تھا جبکہ کابینہ نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت عدالت نے کہا تھا کہ نواز شریف کو ذاتی بیان حلفی پر جانے دیا جائے، حکومت تو اس وقت بھی شورٹی بانڈ سائن کرانا چاہتی تھی۔'
شہزاد اکبر نے واضح کیا کہ 'نواز شریف کی واپسی کا معاملہ ان کے بیٹے حسین نواز اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار سے مختلف ہے۔ حسین نواز اور اسحٰق ڈار مجرم نہیں جبکہ نواز شریف مجرم ہیں۔ خود برطانوی قوانین کے لیے بھی ایک لمبے عرصے کے لیے ایک مجرم کو پناہ دینا مشکل ہوجائے گا۔'
مجرموں کے تبادلے کے حوالے سے شہزاد اکبر نے بتایا کہ 'مجرمان کی سپردگی کے حوالے سے کرونا وائرس سے قبل برطانوی حکومت کے ساتھ بات چیت ہوئی تھی اور اس حوالے سے ڈرافٹ بھی تیار کرلیا گیا تھا۔ ہمارے پاس بھی اس حوالے سے برطانوی حکومت کی درخواستیں موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے ان درخواستوں کے بدلے ہم مجرم کے تبادلے پر برطانیہ سے بات کریں۔'
سماعت کا احوال
اس سے قبل لاپتہ افراد اور اسلام آباد میں بڑھتے جرائم سے متعلق سماعت آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ سماعت کے دوران مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر نے لاپتہ افراد کے حوالے سے عدالت کو بتایا کہ 'مسنگ پرسنز کا معاملہ کابینہ کے نوٹس میں لایا گیا ہے، جس پر ایک سب کمیٹی بنائی گئی ہے، جس کی سفارشات کابینہ کو بھجوائی جائیں گی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ لاپتہ افراد سے متعلق پولیس رپورٹ کے مطابق صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے 50 ہیں۔
دوران سماعت ایک موقع پر شہزاد اکبر نے عدالت کو بتایا کہ 'ایک تفتیشی افسر جس کا تفتیش کا کوئی تجربہ نہیں اس کو ایک تفتیش کے 350 روپے ملتے ہیں۔' جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'یہی کرپشن کا بڑا ذریعہ بنتا ہے، وہ باقی کے پیسے کہاں سے لیتا ہوگا؟' انہوں نے مزید کہا کہ 'یہاں مفادات کا بھی ٹکراؤ ہے، وزارت داخلہ اور ایف آئی اے سمیت دیگر ادارے ریئل سٹیٹ کے کاروبار میں ہیں۔'
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'عام شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، ہر کوئی طبقہ اشرافیہ کی خدمت کر رہا ہے، ایلیٹ کلچر اب ختم ہونا چاہیے۔'
جس پر شہزاد اکبر نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ 'مسنگ پرسن کے دو ہائی پروفائل کیس تھے، جن کے حوالے سے گذشتہ ماہ عدالت نے ہدایات دی تھیں، جس پر کابینہ میں کمیٹی بھی بنی۔ اس کمیٹی میں وفاقی کابینہ کے تین ارکان اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری اتھارٹی اور ایجنسی کے حکام تھے۔ یہ کمیٹی لاپتہ افراد کے معاملے پر نظرثانی کرے گی۔'
سماعت کے بعد عدالت نے لاپتہ افراد اور اسلام آباد میں جرائم کی شرح کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 19 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔