ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز کے سلسلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس نکتے پر معاونت طلب کی ہے کہ کیا سابق وزیراعظم کو اشتہاری قرار دیے جانے کے بعد یہ درخواستیں سنی جا سکتی ہیں؟
گذشتہ روز اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں مسلسل غیر حاضری کے باعث پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو مفرور قرار دیا تھا جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کی جائیداد کا ریکارڈ سات دن میں طلب کرتے ہوئے اس کی ضبطی کا حکم بھی دیا۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت کی۔ گذشتہ سماعت پر عدالت نے سابق وزیراعظم کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس عامر فاروق نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ 'ملزم کو اشتہاری قرار دینے کے کیا اثرات ہوں گے؟ اشتہاری قرار دیے جانے کے بعد کیا ہم نواز شریف کی درخواست پر سماعت کر سکتے ہیں؟'
جسٹس عامر فاروق نے مزید ریمارکس دیے کہ 'گذشتہ سماعت پر صرف ضمانت ختم ہونے کا معاملہ تھا لیکن اب انہیں ایک عدالت سے اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے۔ '
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کو بتایا کہ 'اشتہاری ملزم کا قانون کے سامنے سرینڈر کرنا ضروری ہے۔'
اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے احتجاج کرتے ہوئے عدالت کے روبرو کہا کہ 'آپ مجھ سے سوال پوچھ رہے ہیں اور جواب یہ دے دیتے ہیں۔'
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ 'قانون کے مطابق اشتہاری ملزم کو قانون کے سامنے سرینڈر کرنا ضروری ہے۔'
جسٹس محسن اختر کیانی نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو مخاطب کرکے کہا کہ 'آپ کی معلومات کے مطابق کیا نواز شریف کسی ہسپتال میں داخل ہیں؟ جس ڈاکٹر کا میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرایا گیا وہ تو خود امریکہ میں ہیں۔ گذشتہ سات آٹھ ماہ میں نواز شریف ہسپتال میں داخل ہی نہیں ہوئے، اگر کوئی ہسپتال میں داخل ہو تو پھر بات الگ ہوتی ہے۔'
خواجہ حارث نے عدالت کو جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 'اس حوالے سے میں پہلے بھی عدالت کی معاونت کر چکا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ پہلے اپیل سن لیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ 'اپیل سننے کے لیے ہم پہلے مفرور ڈیکلیئر کریں گے اور پھر اپیل سنیں گے۔'
دوسری جانب جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ 'گذشتہ سماعت پر ہم نے وفاقی حکومت کو بھی کہا تھا۔ ان سے بھی پوچھ لیتے ہیں کہ انہیں ہدایات ملی ہیں یا نہیں؟ نواز شریف 19 نومبر کو بیرون ملک گئے جبکہ چار ہفتے کی مدت دسمبر میں ختم ہو گئی تھی۔'
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 'نواز شریف کا کسی ہسپتال میں علاج نہیں چل رہا۔ وہ پاکستان کا سفر کرنے کے لیے فٹ ہیں، اسی لیے پنجاب حکومت نے ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کی تھی۔'
جس پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ' بیان حلفی میں واضح لکھا ہے کہ ہائی کمیشن کے نمائندے کے ذریعے ان کے موکل کی صحت کا جائزہ لیا جائےگا۔'
عدالت نے استفسار کیا کہ 'نومبر کے بعد کیا حکومت نے نواز شریف کی صحت سے متعلق جاننے کی کوشش کی؟' جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے بتایا کہ 'نہیں، ہم نے معلوم نہیں کیا کیونکہ وہ ہسپتال میں داخل ہی نہیں تھے۔'
عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'نواز شریف کو موقع دیا تھا کہ وہ سرینڈر کریں، ابھی تک نواز شریف کو حاضری سے استثنیٰ بھی نہیں دیا گیا۔'
عدالت عالیہ نے مزید ریمارکس دیے کہ 'کسی عدالت سے اشتہاری ہونے پر ملزم کی اپیلیں سنی جا سکتی ہیں یا نہیں اس نکتے پر اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو بطور حوالہ جمع کروایا جائے۔'
اس کے ساتھ ہی عدالت نے اپیلوں پر سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
نیب کی درخواست
سماعت سے قبل نیب نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت منسوخی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا ہے کہ نواز شریف نے سزا معطلی کے بعد اس رعایت کا غلط استعمال کیا اور بیرون ملک جا کر مفرور ہونے کے بعد وہ اس رعایت کے مستحق نہیں رہے، لہذا ان کی ضمانت ختم کرکے انہیں گرفتار کرنے کی اجازت دی جائے اور سیکرٹری داخلہ و سیکرٹری خارجہ کو قانون کے مطابق ذمہ داریاں ادا کرنے کاحکم دیا جائے تاکہ نواز شریف واپس آ کر اپنی قید کی سزا کاٹ سکیں۔