احتساب اگر آزادانہ اور قابل اداروں کے ہاتھوں ہوتا تواس کو تقریبا سب ہی خوش آمدید کہتے۔ آخر سب نے دیکھا ہے کہ یہاں حکومت چاہے جمہوری ہو یا غیرجمہوری عموماً بہت سے حکمرانوں کا مقصد دولت کی فراوانی ہی ہوتی ہے۔ تو ایک طرف احتساب کی ضرورت لیکن دوسری طرف احتساب کی تاریخ - آمر حکمران اور جمہوری حکومتیں سب نے احتساب کا ڈھونگ رچایا ہے۔ البتہ عمران خان کا سیاسی سفر مختلف رہا تو اس وجہ سے امیدیں بھی زیادہ تھیں۔
تین اہم نکات ہیں ایک تو یہ کہ عمران خان جس طریقے سے حکومت میں آئے یقینا مدد لے کر آئے۔ ان کے مددگاروں کو پی ایم ایل این کے لوگوں کو ان کی پارٹی سے توڑنا پڑا۔ اس سے یقینی طور پر الیکشن کے بعد سیاسی ماحول میں کافی تناؤ پیدا ہوا اور اس کا اثر پارلیمنٹ میں تواتر سے نظر آتا رہا۔
اب اس ماحول میں بحیثیت وزیراعظم ان کے پاس کیا چوائسز تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اس جھگڑے میں پڑجاتے جس میں وہ پڑ گئے ہیں اپوزیشن کا جو غصہ تھا اس کا جواب اسی طریقے سے دیتے جس طرح سے دے رہے ہیں یا پھر اپنی توجہ ان چیلنجز، مسائل اور وعدوں پر رکھتے جو کر کے آئے تھے لیکن ہم نے دیکھا یہ کہ عمران خان پر جب پارلیمان میں تنقید ہوتی تو ان کا ردعمل بڑا سخت ہوتا تھا۔
عمران خان پر اپوزیشن ایک طرف گاہے بگاہے تنقید کرتی رہی لیکن کئی مواقع آئے جب اس نے انہیں سپورٹ دی اور بہت واضح الفاظ میں کہا کہ ہم آپ کے ساتھ کام کریں گے۔ مثال کے طور پر شہباز شریف نے کہا کہ ہم چارٹر آف اکانومی پر بات کرتے ہیں اور اس پر مل کر آگے چلتے ہیں۔ یہ دلچسپ بات ہے بہت سے ممالک ایسے ہیں جنہوں نے چارٹر آف اکانومی پر کام کیا ہے۔ بعض جنوبی امریکہ کے لوگ ہیں اور کچھ ویتنام جیسے ممالک ہیں جہاں انہوں نے یہ طے کیا کہ جو بھی حکومت میں آئے جو بھی معاشی پالیسیز ہوں وہ ہم چلاتے رہیں گے ان میں ربط رکھیں گے اور ان میں کوئی مشکل پیدا نہیں کریں گے۔
لیکن بہرحال عمران خان نے شہباز شریف کی پیشکش کو مسترد کر دیا۔ جب کرونا (کورونا) وائرس آیا تو اس وقت بلاول بھٹو نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ آپ ہمارے وزیر اعظم ہیں آپ پورے ملک کے وزیراعظم ہیں آپ آگے بڑھیں ہم آپ کے ساتھ ساتھ چلیں گے۔ لیکن اس کو بھی عمران خان کی حکومت نے تقریبا رد ہی کیا۔
آصف علی زرداری بھی کہتے رہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی پر بات کرتے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ سال ٹڈی دل کی بات کی کہ آپ ہمارے مسائل کو حل کریں لیکن اس پر بھی یہ دیکھا گیا کہ وزیراعظم نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ اس کو ایک موقع سمجھتے ہوئے مل کر کام کرتے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا۔
وزیراعظم عمران خان نے ناصرف حزب اختلاف کی مل کر کام کرنے کی پیشکش چاہے وہ معیشت میں ہو یا کرونا کی وبا کو رد کیا۔ انہوں نے اپنے دو سال میں یہ تہیہ کیا کہ احتساب کو اولین ترجعی دیں گے اور اس کے بارے میں تواتر کے ساتھ خود ذاتی طور پر بات کریں گے۔ ساتھ میں وہ یہ کہتے رہے کہ یہ سب چور ہیں، ڈاکو ہیں اور اب حال ہی میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ جیب کترے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ فرمایا کہ میں انہیں نہیں چھوڑوں گا ان کو کسی صورت این آر او نہیں دوں گا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ میں اگر این آر او دوں گا تو غدار کہلاؤں گا۔
یوں بظاہر لگتا تھا کہ اپوزیشن کی طرف سے باقاعدگی سے این آر او مانگا جا رہا ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب ہم نے ایف اے ٹی ایف پر بات کی تو یہ لوگ نیب کے قانون میں تبدیلی کے لیے اپنا ایک پلندہ لے آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ایف اے ٹی ایف پر بلیک میل کر رہی تھی اور اس قانون میں تبدیلی کے بدلے این آر او مانگ رہی تھی۔ بعد میں مفتاح اسماعیل سے پتہ چلا کہ اس میں تیسری قوت فوج کے نمائندوں نے کہا کہ مذاکرات کریں اور نیب کے قوانین میں تبدیلی کا جو مسئلہ ہے وہ بھی تیسری قوت یعنی فوج کے نمائندوں نے اٹھایا تھا۔
گذشتہ دو ڈھائی سال میں جو ماحول بنایا گیا ہے کہ سب چور ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ان چوروں کو پکڑیں گے پکڑوائیں گے۔ ایف آئی اے کی بات وہ کرتے تھے اور ایف آئی اے میں یقینا ایک کیس جو ٹی ٹیز کا کہلایا اس میں جو شواہد دیئے گئے وہ ایک مضبوط کیس تھا۔ اس کو عمران خان خود لیڈ کر رہے تھے۔ بار بار اس پر بات کر رہے تھے اور اپوزیشن رہنماؤں سے بات کرنے سے بالکل انکاری تھے۔
بحیثیت ایک وزیراعظم عمران خان نے یہ تاریخ قلم بند کردی ہے کہ وزیر اعظم تمام حزب اختلاف کے رہنماؤں کا بائیکاٹ کر دے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب کرونا کے معاملے پر ایک اے پی سی بلائی اس میں شہباز شریف، بلاول بھٹو اور دیگر رہنما بھی موجود تھے لیکن وزیر اعظم اپنی بات کر کے وہاں سے چلے گئے۔ وہ دوسروں کی بات سننے کے لیے رکے ہی نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعظم نے ڈھائی سال میں یہ ماحول کہیں نہیں بننے دیا کہ کسی طریقے سے اپوزیشن سے رابطہ کرتے۔ ان کی شکایت تھی کہ یہ مجھے پارلیمنٹ میں بولنے نہیں دیتے۔ پارلیمان میں ہمیشہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چل جائے گا کہ کس کس وزیراعظم پر کس کس طرح کی آوازیں کسی گئیں، کیا کیا نہیں ہوا۔ دنیا میں جمہوریت اسی طرح چلتی ہے۔ یہ البتہ ایک انوکھی بات تھی کہ وزیراعظم نے طے کیا کہ وہ کسی صورت بات نہیں کریں گے۔
حال ہی میں گلگت بلتستان کے معاملے پر اجلاس ہوا وہ میٹنگ آرمی چیف نے بلائی۔ اس میں شہباز شریف، بلاول بھٹو اور دیگر پارٹیز کے سینیئر رہنما بھی موجود تھے لیکن وزیراعظم نے اس اجلاس میں بھی جانے سے انکار کر دیا۔ وہ ملاقات پھر آرمی چیف نے کی۔ اس کے بعد کون کس سے ملا جیسی چیزیں باہر نکل آٗئیں۔ تو اگر کہا جائے کہ وزیراعظم کا احتساب کا جو ایجنڈا تھا اس میں انہوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ انہوں نے احتساب کرنا ہے تو اپوزیشن سے بات نہیں کرنی۔ احتساب کے حوالے سے ان کے سینیئر وزیر اسد عمر سے جب ایک صحافی نے بات کی تو انہوں نے بھی کہا کہ ان کے احتساب کے بیانیئے سے انہیں کچھ نقصان نہیں ہوا۔
ایک طرف احتساب کے حوالے سے وزیراعظم نے بہت سخت ماحول بنایا اور جس طرح سے جو زبان اپوزیشن کے لیے استعمال کی، جو القابات دیئے اس سے حالات بگڑتے گئے۔ یہ یاد رہے کہ وزیراعظم کی ذمہ داری حکومت کو چلانا ہوتی ہے اور حکومت میں ہر صورت اپوزیشن بھی ہوتی ہے یہ تو نہیں ہوسکتا کہ آپ اپوزیشن کو روئے زمین سے غائب کر دیں۔ احتساب کا کام تو ادارے کرتے ہیں وہ تو تو میں، القابات دینے اور چور ڈاکو کہنے سے نہیں ہوتا۔ اس ماحول میں حالات بگڑتے گئے اور تعلقات اس نہج پر آگئے کہ حکومت کے مسائل بڑھ گئے۔
عمران خان نے کچھ سیکٹرز میں اچھی نیت کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن جن چیزوں کا عوام سے تعلق ہے جیسے گیس، بجلی کی قیمت، چینی، ٹماٹر یہ سب چیزیں جب مہنگی ہوئیں اور کرونا جو حکومت کا بنایا ہوا ہے نہیں ہے لیکن اس سے بھی عوام پر ایک اور بوجھ پڑا تو پھر اپوزیشن نے اسے ایک موقع غنیمت جانا اور وہ سب اکٹھے ہوگئے۔ اپوزیشن کے سیاست دان ایک ساتھ ہیں اورجو مسئلہ ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔
یہ بھی سامنے ہے کہ احتساب کے نام پر کتنے لوگوں کو سزا ہوئی۔ نواز شریف صاحب کا باہر جانا اس میں عدالت بھی تھی، تیسری قوت بھی تھی وزیراعظم کا بھی کردار تھا۔ وہ ایک الگ قصہ ہے۔
بہرحال آج لاہور میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہے وہ آج ڈنکے کی چوٹ پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔ لیکن بڑھتے ہوئے کرونا کے پس منظر میں یہ بہت غیر ذمہ دارانہ جلسہ ہے۔ وزیراعظم نے جو رویہ اپنایا اپوزیشن کی طرف جہاں ایک ذرہ بھر گنجائش بات چیت کی نہیں چھوڑی۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں تھا کہ احتساب نہیں کرتے۔ حکومت چلانے کا جمہوری طریقہ تھا کہ بات کرتے وہ نہیں کی تو آج پی ڈی ایم کا لاہور میں بڑا جلسہ ہونے جا رہا ہے۔
اب وزیراعظم خود سوچ لیں کہ آج وہ جہاں کھڑے ہیں۔ کیا انہوں نے احتساب کو آگے بڑھا لیا ہے، انہوں نے وہ ماحول بنا لیا ہے جو کام وہ خود بھی کرنا چاہتے تھے وہ کر پائے ہیں یا نہیں۔ جواب وزیراعظم خود دیں گے۔