پاکستان کا پہلا سیاسی اتحاد 1952 میں ڈیموکریٹک یوتھ لیگ کے نام سے پاکستان مسلم لیگ کے مقابل بنا تھا لیکن نہ تو اس اتحاد کے پاس کوئی دور اندیش قیادت تھی اور نہ ہی کوئی واضح ایجنڈا، اس لیے منظر عام پر اُبھرنے سے پہلے ہی بن کھلے مرجھا گیا۔
البتہ صرف ایک سال بعد ہی اسی مسلم لیگ کی مخالفت میں یونائیٹڈ فرنٹ کے نام سے ایک طاقت ور اور فعال سیاسی اتحاد وجود میں آ چکا تھا، جس میں نظام اسلام پارٹی، عوامی مسلم لیگ، کرشک پراجا پارٹی اور جنتا دل جماعتیں شامل تھیں۔
ان جماعتوں کا بنیادی اثر و رسوخ اور ووٹ بینک مشرقی پاکستان میں تھا اسی لیے اس اتحاد کا قیام بنگال کی قانون ساز اسمبلی سے ذرا پہلے معرض وجود میں آیا اور اسی سال ہونے والے الیکشن میں یونائیٹڈ فرنٹ نے مسلم لیگ کی نو سیٹوں کے مقابل 223 سیٹیں جیت کر پورے مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کو اکھاڑ کر رکھ دیا۔
1970 میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے بھی اسی روایت کو عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کی شکل میں دہرایا۔ دوسرا بڑا سیاسی اتحاد ایوبی آمریت کے خلاف متحدہ اپوزیشن کے نام سے اس وقت بنا جب 1964 کے صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح ڈکٹیٹر ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی امیدوار بن کر اتریں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایوب خان ’فرشتوں‘ کی مدد سے یہ الیکشن ’جیت‘ گئے۔
1964 کے متنازع انتخابات کے بعد متحدہ اپوزیشن کا سیاسی اتحاد بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا لیکن اپریل 1967 میں نوابزدہ نصراللّہ خان کی قیادت میں پانچ پارٹیوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) کا اتحاد وجود میں آیا۔
اس اتحاد نے آمر ایوب خان کو سیاسی میدان میں پچھاڑ کر رکھ دیا اور وہ اقتدار سے چلتے بنے۔ 1977 کے الیکشن سے پہلے بھٹو کے مقابل نو جماعتی اتحاد (قومی اتحاد ) بنا لیکن الیکشن میں پیپلز پارٹی پورے پاکستان خصوصاً پنجاب اور سندھ میں صفایا کر گئی جبکہ قومی اتحاد کے حصے میں صرف 36 سیٹیں آئیں۔
تاہم قومی اتحاد کے لیڈروں نے بھٹو پر شدید انتخابی دھاندلی کے الزامات لگائے اور ملک گیر احتجاج شروع کیا جس کا اختتام بلاخر ضیا الحق کے مارشل لا اور بھٹو کی پھانسی پر ہوا۔
1981 میں سیاسی جماعتوں نے مل کر ضیائی مارشل لا کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی ) کی بنیاد رکھی۔ یہ تحریک سیاسی کارکنوں کی لازوال قربانیوں اور ضیا الحق کے جبر کی مثال بنی، تاہم عوامی سطح پر اس تحریک اور اتحاد کو بہت پذیرائی ملی۔
بعد کے عشروں میں بھی سیاسی اور انتخابی اتحاد بنتے اور بگڑتے گئے۔ 1988 کے الیکشن سے پہلے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اسلامی جمہوری اتحاد مقتدر قوتوں کے اشارے اور مدد پر تشکیل پایا جس کی سربراہی سندھ سے تعلق رکھنے والے غلام مصطفٰے جتوئی کر رہے تھے۔
لیکن سٹیبلشمنٹ کے لاڈلے وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف ہی تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوری اتحاد اور اس کے رہنما ایک معدوم کہانی بنتے گئے اور نواز شریف اسی مٹتے منظر نامے سے ایک دیوہیکل سیاسی قوت بن کر نمودار ہو ئے جو تاحال منظر پر موجود ہیں۔ اس وقت کسے معلوم تھا اس وقت کی سٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا ایک دن انہی آنکھوں میں تنکے کی طرح کھٹکنے لگے گا۔
90 کے عشرے میں جہاں اسلامی جمہوری اتحاد کے مقابل پیپلز پارٹی نے ایک نیا انتخابی اتحاد پی ڈی ایم ( پیپلز ڈیموکریٹک الائنس ) تشکیل دیا، وہیں دوسرے چھوٹے بڑے سیاسی اتحاد بھی بنتے اور ٹوٹتے گئے، لیکن پرویز مشرف کی مارشل لا کے ساتھ ہی نوابزادہ نصرالّلہ خان نے ڈیڑھ درجن جماعتوں پر مشتمل گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس یا تحریک بحالیِ جمہوریت نامی طاقت ور سیاسی اتحاد آمریت کے مقابل تشکیل دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس اتحاد میں پہلی بار مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کندھے سے کندھا ملا کر چلے۔ 2002 کے انتخابات سے پہلے دینی جماعتوں پر مشتمل اتحاد متحدہ مجلس عمل قائم ہوئی اس اتحاد میں جے یو آئی اور جماعت اسلامی جیسی اہم دینی جماعتیں شامل تھیں جنھوں نے الیکشن کے بعد خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مخلوط حکومتیں تشکیل دیں۔ تاہم یہ اتحاد اور حکومتیں مولانا فضل الرحمٰن کے گرد ہی گھومتی رہیں۔
2008 کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی نے جے یو آئی، اے این پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی، گویا پاکستانی سیاست ایجی ٹیشن اور اتحادوں کی بجائے افہام و تفہیم کی طرف چل پڑی۔ اسی دوران عمران خان بھی نمودار ہوئے اور مبینہ طور پر نادیدہ قوتیں بھی سرگرم ہو گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوری قوتوں نے ایک بار پھر سیاسی اتحاد کی راہ لی۔
اب جب کہ پاکستانی سیاست کے اتحادوں کی عمر 60 سال کی پختگی کو چھونے لگی ہے تو اگلا پڑاؤ پی ڈی ایم یعنیٰ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ہی ٹھہرا ہے۔
ہم یہ پیشن گوئی تو نہیں کر سکتے کہ حالیہ اتحاد کا مستقبل کیا ہو گا، مگر یہ بہرحال ماننا پڑے گا کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ جمعیت علمائے اسلام ف، عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی جیسی جہاندیدہ اور سر دو گرم چشیدہ جماعتوں کی قیادت اور سخت جان کارکنوں کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔