اگر ہم اس وقت پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو تقریبا ساری بڑی سیاسی جماعتوں کی سمت دائیں بازو کی طرف نظر آتی ہے۔ ہماری بڑی اور کچھ حد تک واحد بائیں بازو کی جماعت پیپلز پارٹی بھی پچھلی دو دہائیوں میں اب کسی دائیں بازو کی پارٹی سے کم نظر نہیں آتی۔
فوجی آمر ضیا الحق نے اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے اپنے کئی سیاسی مظالم میں سے ایک ظلم بائیں بازو کی سیاست کو ناصرف بدنام اور رسوا کیا بلکہ بائیں بازو کے سیاسی رہنماؤں کو تشدد اور جبر کا نشانہ بھی بنایا۔
یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
ضیا الحق کی دہائی نے پاکستان کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا جس کی وجہ سے انتہا پسندی، عدم برداشت، دہشت گردی اور اس جیسی کئی منفی قدریں ہمارے قومی تشخص کا لازمی جز بن گئیں اور بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے یا تو غدار قرار دیے گئے یا انہیں ملحد کہا گیا۔
پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ نے آغاز سے ہی فیصلہ کر لیا تھا کی پاکستان میں ترقی پسند سوچ جس میں عام عوام کی معاشی خوش حالی، مزدوروں کے استحصال کا خاتمہ اور زرعی اصلاحات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس سوچ کو ہماری امریکہ کے ساتھ سوویت یونین کو محدود کرنے کے لیے دفاعی معاہدوں میں شمولیت نے مزید تقویت دی۔ بائیں بازو کی سوچ کو کچلنے کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے قرارداد مقاصد کا سہارا بھی لیا گیا۔
اسی وجہ سے آزادی کے فورا بعد بائیں بازو کی جماعتوں کو شدید ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں مجبوراً زیر زمین کام کرنا پڑا یا انہوں نے متبادل پلیٹ فارمز سے کام شروع کیا۔ ان مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب راولپنڈی سازش کیس میں کئی اہم شخصیات جن میں فیض احمد فیض اور کچھ فوجی افسران شامل تھے گرفتار کر کے انہیں سزائیں دی گئیں۔ ان سب اقدامات نے بائیں بازو کی قوت اور اسے ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بننے کی صلاحیت کو شدید متاثر کیا۔ اس سے ان کے لیے انتخابات کے دروازے بھی بند ہوئے اور انہیں عوام میں اپنا پیغام پھیلانے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومتی مخالفین کو غدار کہنے کی روایت اسی وقت سے شروع ہوئی جو اب تک پوری آب و تاب سے جاری ہے۔
بائیں بازو کو اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کا موقع ایوب خان کے خلاف تحریک میں ملا۔ اس جدوجہد میں زرعی اصلاحات، مزدوروں کے حقوق اور بڑی صنعتوں کو قومیانے کے نعروں نے اہم جگہ پائی۔ بائیں بازو کی اہم قوتوں نے مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کا زور و شور سے ساتھ دیا اور بائیں بازو کے کئی رہنما پارلیمان کے ارکان منتخب ہوئے اور حکومت میں اعلی عہدوں پر بھی فائز ہوئے۔
بائیں بازو اور پیپلز پارٹی کا یہ اتحاد زیادہ دیر نہیں چلا اور آہستہ آہستہ بائیں بازو کے بڑے رہنما یا تو پارٹی چھوڑ گئے یا ان کے لیے پارٹی میں عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ اس علیحدگی کی وجہ ان رہنماؤں کی اپنی نظریات پر سختی سے قائم رہنا اور کچھ حد تک ذوالفقار علی بھٹو کے آمرانہ رجحانات بنی۔ بھٹو بظاہر ایک ترقی پسند رہنما تھے جو غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کی حالت زار بہتر کرنا چاہتے تھے مگر دل سے ایک جاگیردار بھی تھے جس کی وجہ سے یہ اتحاد ناپائیدار ثابت ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس اتحاد کے خاتمے پر بائیں بازو کے ان رہنماؤں کو پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں جیسے ریاستی جبر کا بھی دوبارہ سامنا کرنا پڑا۔ اس جبر میں ضیا الحق کی آمد کے بعد مزید اضافہ ہوا۔ ضیا کے دور میں دائیں بازو کے دونوں معتدل اور انتہا پسندوں کو پوری حکومتی حمایت حاصل رہی اور ان کے ذریعے بائیں بازو کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ اسی دور میں بائیں بازو کے سرکردہ رہنماؤں، دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو بیرون ملک پناہ لینی پڑی۔
ضیا الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک جس کی قیادت ترقی پسند پارٹیاں کر رہی تھی انتہائی سختی سے نمٹا گیا اور اس تحریک میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ حکومتی سرپرستی میں دائیں بازو کی جماعتوں خصوصا جماعت اسلامی نے بائیں بازو کے روایتی مضبوط گڑھ یونیورسٹیوں، ٹریڈ یونینز اور اس طرح کی دوسری تنظیموں پر مکمل قبضہ کر لیا۔
اس قبضہ سے بائیں بازو کی طاقت اور اثر میں مزید کمی واقع ہوئی۔ اس طاقت میں مزید شگاف افغان جہاد کے دوران دائیں بازو کی مغرب سے بے تحاشہ مالی امداد سے ڈالا گیا۔ ڈالروں کی روانی نے بائیں بازو کی سیاسی قوت کو ایک اور طرح سے بھی کمزور کیا۔ اس فراوانی نے این جی اوز کے کلچر کو بھی فروغ دیا اور بہت سارے بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے اپنے نظریات کی تکمیل کے لیے ان این جی اوز کے ذریعے ترقیاتی پروگراموں میں شریک ہوئے اور انتخابی سیاست سے مزید دور ہو گئے۔
بائیں بازو کی مختصر سیاسی اٹھان 2008 کے انتخابات میں خیبرپختونخوا میں اے این پی کی کامیابی کی صورت میں ہوئی۔ لیکن طالبان کی طاقت نے اس حکومت کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔ سوات میں طالبان کا قبضہ اور 2009 سے 2013 کے درمیان ایک ہزار سے زیادہ اے این پی کے ارکان کی طالبان کے ہاتھوں اموات نے اے این پی کی حکومت کو کافی کمزور کر دیا۔ یہی وجہ تھی جس نے اسے اپنے ترقی پسند ایجنڈا پر عمل درآمد کرنے میں ناکامی سے دوچار کیا اور اسی وجہ سے اسے 2013 کے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس وقت پاکستان میں بائیں بازو یا ترقی پسند سوچ رکھنے والی سیاسی قوتیں مسلسل زوال کا شکار ہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ابھی بھی ان کی قدرے قوت موجود ہے مگر مقتدر قوتوں کے عناد، دباؤ اور جبر سے اس کی طاقت میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
ان مصائب کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان میں بائیں بازو کا کوئی مستقبل نہیں۔ معاشی اور سیاسی حقیقتیں بدلتی رہتی ہیں اور پاکستان میں معاشی انصاف اور برابری کے نعرے کبھی بھی اپنی اہمیت نہیں کھوئیں گے۔