وہ خود کو 'کمانڈر' کہتا تھا اور ایک دائیں بازو کے شدت پسند گروہ کی قیادت کر رہا تھا۔ اس گروہ کے ارکان یورپ کے 15 ملکوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ وہ ان ارکان سے بم بنانے کے طریقے اور بڑے شہروں پر حملے کرنے کے منصوبے شیئر کر رہا تھا۔
لیکن جب یورپی ملک ایسٹونیا کی پولیس نے نام نہاد فیورکریگ ڈویژن 'فائر وار نیٹ ورک' کے سربراہ کا کھوج لگایا، تو وہ ویسا نہیں تھا جیسا وہ توقع کر رہے تھے۔ وہ ایک 13 سالہ بچہ تھا۔
اس گروہ کا یہ نوجوان سربراہ جو اس گروہ کا بانی تھا اور اس کے لیے بھرتیاں کیا کرتا تھا، اب حکام کی تحویل میں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکام نے اخبار ایسٹی ایکسپریس کو بتایا کہ ایسٹونیا کے قوانین کے تحت کم عمری کی وجہ سے ان کا نام نہیں بتایا جا سکتا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے لیکن قانونی بنیادوں پر یہ یقینی بنایا جائے گا کہ وہ کسی کے لیے خطرے کا باعث نہ بنیں۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ 70 افراد پر مبنی اس گروہ کے ارکان کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کی قیادت ایک سکول جانے والا بچہ کر رہا ہے۔
یہ آن لائن تنظیم پولیس کی جانب سے خطرناک خیال کی جا رہی تھی جس کی وجہ اس کے ارکان کی شدت پسندی تھی۔
حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اس گروہ کے ارکان ہیڈرک اور اس نوعیت کے دیگر نام استعمال کر رہے تھے اور ان کے درمیان لندن جیسے شہروں پر حملے کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی تھی۔
اس کے علاوہ ان ارکان کی بندوق اور ہٹلر کی کتاب 'مین کامپف' تھامے تصاویر بھی ملی ہیں۔ اس گروہ کا نصب العین 'جو ہمارے راستے میں آیا ہم اسے قتل کر دیں گے' تھا۔ حکومت کی جانب سے اس گروہ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
© The Independent