ایک وقت تھا جب پوری دنیا کی طرح پاکستان کی سیاسی قبیل بھی دائیں اور بائیں بازو کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر منقسم تھی۔ سیاست میں مذہب، روایات کو اساس سمجھنے والے یا پھر نسل، قوم پرستی کی بنیاد پر اپنے سیاسی افکار کو پروان چڑھانے والے قدامت پسند اور دائیں بازو والے کہلاتے تھے۔ دوسری طرف ترقی پسند، لبرل، سیکولر اور انقلابی نظریات اور اصلاحات کے حامی یا سوشلسٹ نظریات کے حمایتی بائیں بازو والے سیاسی کارکنان کہلاتے تھے۔
نظریات کی ان دو انتہاؤں کے وسط میں معتدل اور قدرے غیرجانبدار نظریات رکھنے والے سیاسی رہنماؤں کو مرکز یا سینٹر کے سیاسی رہنما کہا جاتا تھا۔
دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کی یہ تقسیم ایک مدت تک پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں بھی رائج رہی اور انہی نظریات کی بنیاد پر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی بائیں بازو، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں جبکہ مسلم لیگ اور پی ٹی آئی سینٹر رائٹ کی سیاسی پارٹیاں تصور کی جاتی رہی ہیں۔
لیکن حیران کن طور پر پچھلے چند برسوں میں سیاسی پارٹیوں میں دائیں اور بائیں بازو کی اس پولیٹیکل پولرائزیشن کا تصور بہت تیزی سے معدوم ہوتا نظر آیا ہے۔ اب سیاسی پارٹیوں میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کی جگہ ’بیانیہ کی سیاست‘ نے تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے۔ اب سیاسی پارٹیاں اور ان کے ترجمان کسی باقاعدہ طور پر طے شدہ پارٹی منشور کی بجائے کسی بیانیہ کا بارہا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز ہوں یا پارٹی پریس کانفرنس کسی نہ کسی جگہ آپ کو بیانیہ کی تکرار ضرور سنائی دیتی ہے۔
سیاست میں بیانیہ کی یہ اصطلاح دراصل ’ادب‘ سے وارد ہوئی ہے۔ ادب یا لٹریچر میں بیانیہ قصہ، روایت، کہانی یا افسانہ کو کہتے ہیں۔ جبکہ سیاست میں بیانیہ ایک ایسی کہانی کو کہتے ہیں جو کسی خاص واقعہ یا واقعات کے کی روشنی میں ایک کہانی کی طرح مخصوص سیاسی اہداف حاصل کرنے کے تخلیق کی جاتی ہے۔
سادہ الفاظ میں بیانیہ ایسی کہانی کو کہتے ہیں جو سیاسی پارٹیاں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وقتاً فوقتاً موقع محل اور حالات حاضرہ کی مناسبت سے بنا کر پیش کرتی رہتی ہیں۔ اب سیاسی پارٹیاں مستقل طور پرخود کو لیفٹ رائٹ نظریہ کی سیاسی جماعت ڈکلئیر کروا کر محدود کرنے کی بجانے زمینی اور معروضی حالات کی روشنی میں بیانیہ کی سیاست پر کاربند نظرآتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیاسی جماعتیں اب ایک کل یا جزو وقتی ایک بیانیہ تخلیق کرتی ہیں اور یہ بیانیہ ان کی سیاست کا محور ہوتا ہے۔
تحریک انصاف کا کرپشن کے خلاف ایک بیانیہ رہا ہے اور اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کا پارلیمان کی بالادستی، اٹھارہویں ترمیم اور صوبائی خود مختاری پر ایک واضح بیانیہ رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کا سول بالادستی کا اپنا ایک بیانیہ رہا ہے اور2018 کا پورا الیکشن مسلم لیگ نے اسی بیانیہ کی بنیاد پر لڑا۔ ان کے نعرے ’'ووٹ کو عزت دو‘ نے سیاسی ماحول میں خوب ہلچل پیدا کی رکھی ہے۔
اگرچہ ایک عرصے تک ن لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ جماعت کا الزام لگتا رہا ہے مگر ن لیگ نے اب اپنا سیاسی قبلہ بھی بدل لیا اور اپنا بیانیہ بھی۔ ن لیگ اور اس کی قیادت ملک کی حاکمیت کے معاملے میں بہت شدت کے ساتھ سول بالادستی کی غیر مشروط طور پر اور بلاشرکت غیرے خواہش مند رہی ہے۔
اس طرح آج کل ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی بیانیہ کو لے کر چل رہی ہے۔ اور یوں بیانیہ کی سیاست کا یہ نیا ٹرینڈ ہمارے سیاسی ماحول میں تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ بیانیہ نے ادبیات سے سیاسیات کا سفر بہت تیزی سے طے کیا ہے۔
بیسویں صدی کے اختتام سے قبل سیاسی دانشوروں نے حالات و واقعات کے پیش نظر بیانیہ پیش کرنے کے عمل کا آغاز کیا اور اس میں تواتراور شدت کے ساتھ اضافہ اکیسویں صدی میں الیکٹرانک میڈیا کی مقبولیت کے ساتھ دیکھنے کو ملا۔
2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کے اس بیانیہ نے کافی توجہ حاصل کی جس میں انہوں نے حزب مخالف کی امیدوار ہیلری کلنٹن کے خلاف متنازع ای میل، نئی امیگریشن بل، میکسیکو کے ساتھ دیوار اور امریکی انتخابات میں روسی مداخلت جیسے بیانیے پیش کیے اور ان کو بھرپور طاقت اور میڈیا کی وساطت سے امریکی عوام کے سامنے پیش کیا۔
2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح میں کے اس بیانیہ کی سیاست نے اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح امریکی صدارتی انتخابات سے اٹھنے والے بیانیہ کا یہ غلغلہ آہستہ آہستہ پوری دنیا کی سیاست میں مقبول ہوگیا اور اب سیاست دن اور سیاسی ورکرز پریس کانفرنس ٹاک شو یا سیاسی جلسوں میں پارٹی آئین یا پارٹی منشور سے زیادہ ’بیانیہ‘ کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں۔