سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ سیاست خدمت کا نام ہے۔ سیاست عبادت ہے مگر پاکستان میں اس طرح کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی۔ مدت ہوئی ہماری سیاست طوائف کی طرح ’تماش بینوں‘ میں گھری ہوئی ہے۔
نو ماہ سے مضحکہ خیز صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مشن کا درجہ رکھنے والی سیاست رفتہ رفتہ اس موڑ پر آ گئی ہے کہ ’مسخرے‘ اس میدان کے شہسوار اور نظریات سے جڑے رہنے والے لوگ کوچہ سیاست سے بے دخل ہو کر رہ گئے۔ دل خون کے آنسو رو رہا کہ اگر کوئی سنجیدہ آدمی بھول کر اس کوچہ بازار میں قدم رکھ دے تو اس کا وہی حشر ہوتا ہے جو لڑکوں کی محفل میں کسی سفید ریش بزرگ کا۔
سیاست سوچ بچار کا نام تھا، مسائل کے حل کا نام تھا، مسائل کو حل کرنے والی سوچ بچار بہت پیچھے رہ گئی۔ ترقی کرتی معشیت روبہ زوال ہوگئی۔ سرمایہ کاروں نے اس ڈر سے سرمایہ کاری کرنا چھوڑ دی کہ کیا معلوم حکومت کل کس ڈگر پر چل پڑے اور ان کی جمع پونجی لٹ جائے۔
سیاست اصول کا نام تھا۔ جو دو ہفتوں میں لاکھوں نوکریاں دینے کا وعدہ کرتے ہیں پھر ڈھٹائی سے مکر جاتے ہیں۔ سیاست بگڑے حالات کو سدھارنے کی ایک تدبیر ہوتی ہے۔ اب اہل وطن کے لیے تعزیر کا درجہ اختیار کر گئی، کہاں روہیں کہاں ماتم کریں کس کے آگے فریاد کریں؟
فریادی دربار میں جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ قوم صبر کرے کوئی راستہ نہیں دکھایا جا رہا ہے۔ قوم کو کہا جا رہا ہے پیٹ پر پتھر باندھ لیں۔ وہ نوجوان کس طرح صبر کرے جس کی بوڑھی ماں بیمار ہے اور اس کے پاس دوائی کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
اس وقت ہمارے ملک کی سیاست انحطاط کا شکار ہے۔
ملک کو تجربات کی بھٹی سے گزار کر سیاست کے میدان میں عجیب و غریب تحفے دیے گئے۔ کسی زمانے میں ملک کے وزیراعظم زیڈ اے بھٹو، حسین شہید سہروردی جیسے لوگ تھے اب وزرات اعظمی ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو بات کر کے مُکر جاتے ہیں۔
مملکت خداداد میں تجربے کرنا بند کر دیں اور سیاست اہل سیاست دانوں کے حوالے کر دیں۔ جو اپنی تدابیر سے اس ملک کو گھمبیر مسائل سے نکالیں۔ مہرے کبھی کامیاب نہیں ہوتے یہ پٹ جاتے ہیں اور بُری طرح پٹتے ہیں۔