تلویندر سنگھ وادی تیراہ کے واحد سکھ طالب علم ہیں جنہوں نے تیراہ واپسی کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
2009 میں دیگر لوگوں کے ساتھ سکھ برادری نے بھی یہاں سے نقل مکانی کی تھی۔
تلویندر سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دسویں جماعت کے طالب علم ہیں اور وہ گذشتہ تین سال سے پڑھ رہے ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ یہاں طلبہ کے لیے سکول میں لیبارٹری نہیں ہے جہاں وہ پریکٹیکل تجربے کر سکیں۔
’ہمارا سکول پرائیویٹ ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اسے گورنمنٹ سکول میں تبدیل کیا جائے۔‘
تلویندر سنگھ کہتے ہیں کہ اساتذہ کا ان کے ساتھ رویہ بہت اچھا ہے اور وہ پڑھائی میں ان ساتھ بہت محنت کرتے ہیں۔
تیراہ کا علاقہ تعلیمی میدان میں بہت ہی پیچھے رہ چکا ہے۔ سکولوں میں اساتذہ اور کلاس رومز کی کمی، لیٹرینز اور پانی کا مناسب انتظام نہ ہونے کے برابر ہے لیکن تلویندر سنگھ کے لیے یہ سکول پشاور کے سکولوں کی نسبت قدرے اچھا ہے۔
’پشاور میں مجھے تنگ کیا جاتا تھا اور کہا جاتا کہ آپ کا مذہب ٹھیک نہیں اور ہمارا مذہب قبول کرو لیکن یہاں میرے ساتھ بھائیوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔‘
ضم شدہ قبائلی اضلاع میں 35 طلبہ کے لیے صرف ایک استاد موجود ہے۔
نقل مکانی کے بعد واپس اپنے علاقوں میں آنے کے بعد تیراہ کے بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی اور شوق بڑھ گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تلویندر سنگھ کہتے ہیں کہ وہ اپنی فیس دکان میں کام کرکے کماتے ہیں۔
’بازار میں میری دکان ہے اور وہاں کام کرکے اپنی فیس کے پیسے کما لیتا ہوں۔ یہاں نہ کوئی سکالرشپ ہے اور نہ کسی نے ابھی تک پوچھا ہے۔ فیس کے لیے میں بس اپنی دکانداری کرتا ہوں۔‘
دہشت گردی کے دوران کل 360 سکول تباہ ہوئے جن میں سابقہ خیبر ایجنسی کے 139 سکول بھی شامل ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شدت پسندی کے دوران تیراہ کا ایک سکول بھی تباہ نہیں ہوا تھا کیونکہ وہاں سرکاری سکول تھے ہی نہیں۔
تلویندر سنگھ کے مطابق اسی سکول کے پڑھے ہوئے طلبہ ڈاکٹر بنے ہیں۔ ’میں بھی چاہتا ہوں کہ میں بھی ڈاکٹر بنوں کیونکہ اس علاقے کو ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے۔ سرجری یا دیگر مریضوں کو ہمیں پشاور لے جانا پڑتا ہے۔ بہت وقت ہمارا ضائع ہوتا ہے اس لیے میری خواہش ہے کہ یہاں ہسپتال بنے اور ڈاکٹرز ہوں۔‘