آرمینیا میں ہفتے سے آذربائیجان کے ساتھ جنگ کے دوران مارے جانے والے افراد کی یاد میں تین روزہ سوگ کا آغاز ہو گیا ہے۔
دوسری جانب حزب اختلاف نے تنازع سے نمٹنے میں ناکامی پر ملک کے وزیراعظم سے استعفی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان متنازع خطے ناگورنو کاراباخ پر ستمبر سے شروع ہونے والی جنگ میں عام شہریوں سمیت پانچ ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔
نومبر میں ماسکو کی ثالثی میں ہونے والے امن معاہدے کے تحت آرمینیا کی جانب سے یہ خطہ باکو کے حوالے کرنے کے بعد اس جنگ کا خاتمہ ہوا۔
اس معاہدے سے آرمینیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی جہاں اپوزیشن نے وزیر اعظم نیکول پشینان سے استعفی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہفتے کے روز قومی سوگ کے پہلے روز دارالحکومت یوریون میں ہلاک ہونے والے افراد کے لیے بنائے گئے یادگاری کمپلیکس تک وزیراعظم کی قیادت میں ایک ریلی نکالی جا رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے بھی علیحدہ مارچ کا اہتمام کیا ہے۔ وزیر اعظم نیکول پشینان کے مخالفین نے 22 دسمبر سے قومی ہڑتال کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
وزیر اعظم نیکول پشینان نے یادگار تک مارچ سے قبل ایک ویڈیو خطاب میں کہا: ’پوری قوم اس وقت ایک خوفناک خواب سے گزر رہی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا ، "بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سارے خواب ریزہ ریزہ ہوچکے ہیں اور ہماری امیدیں ختم ہوگئی ہیں۔‘
45 سالہ نیکول پشینان ماضی میں ایک اخبار کے ایڈیٹر تھے جو بدعنوان اشرافیہ کے خلاف ایک وسیع احتجاجی تحریک کے بعد تبدیلی کا نعرہ بلند کر کے 2018 میں اقتدار میں آئے تھے لیکن آذربائیجان کے ساتھ چھ ہفتوں کی جھڑپوں کے بعد اب بہت سے لوگوں انہیں ’غدار‘ قرار دے رہے ہیں جن کے مطابق انہوں نے آذربائیجان کے ساتھ ایک ذلت آمیز معاہدہ کیا ہے۔
تمام تر تنقید کے باوجود وزیر اعظم نیکول پشینان نے اب تک اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے انکار کیا ہے۔
امن معاہدے کے تحت روس نے قراقب میں تقریبا دو ہزار امن فوجی دستے تعینات کیے ہیں۔
ماسکو نے جمعے کو کہا تھا کہ رواں ہفتے کے شروع میں ایک بارودی سرنگ پھٹنے سے ایک روسی اہلکار ہلاک ہوا ہے۔