آیئے آپ کو بتاتے ہیں کہ وزیر داخلہ اور ان کی وزارت کتنی طاقتور ہے۔ نیکٹا جو، اس وزارت کا ایک منسلک ڈیپارٹمنٹ ہے، دہشت گردی سے متعلق تمام معلومات کا گڑھ ہے۔ اس ادارے کی انٹیلی جنس کو آرڈی نیشن کمیٹی تمام ایجنسیوں سے حساس ترین دہشت گردی سے معلومات اکٹھا کرتی اور وزیر داخلہ کو پیش کرتی ہے۔
یہ وزارت پاکستان کی اہم فورسز کی کپتان وزارت ہے۔ رینجرز، فرنٹیئر کور، فرنٹیئر کانسٹیبلری، کوسٹ گارڈز اور ان میں ہونے والی تعیناتیاں اس کے ماتحت ہیں۔ ایف آئی اے جو سیاسی اور اندرونی خطرات سے نمٹنے کا مرکزی ادارہ ہے، اسی وزارت کے ذریعے چلتا ہے۔ اسلام آباد کی تمام پولیس اس کی انگلی کے اشارے پر چلتی ہے۔ پاسپورٹ اور امیگریشن کے ڈیپارٹمنٹس اس کی بنائی ہوئی پالیسی کے تابع ہیں۔ نادرا جو اجتماعی معلومات کا مرکز ہے اور جس کا ڈیٹا سونے سے بھی مہنگا ہے، وزارت داخلہ کے دائرہ کار میں ہے۔
اسلام آباد میں موجود تمام سفارت خانے اور ان سے منسلک سفارت کاری کے دوسرے پلیٹ فارمز انتظامی طور پر وزارت داخلہ کے نیچے آتے ہیں۔ سفارت کاروں کا آنا جانا، ویزوں کا حصول، ویزوں میں توسیع، ان سفارت خانوں کی حفاظت اور ان سے جڑے ہوئے سکیورٹی کے معاملات سب وزارت داخلہ کے پاس ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جس نے پاکستان کو کئی سالوں سے زچ کیا ہوا ہے، اپنے بیشتر مطالبات پر عمل درآمد کروانے کے لیے وزارت داخلہ کی کارکردگی کو سامنے رکھتی ہے۔
تمام کالعدم تنظیمیں ان کے اثاثے، قرقیاں، ان کی نقل و حرکت کی پابندیاں، سرحد پار آنا جانا، سب کچھ وزارت داخلہ دیکھتی ہے۔ ایئرپورٹ اور ملک میں داخلے اور اخراج کے تمام ذرائع وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے۔ اور تو اور اسلام آباد میں موجود دشمن اور دوست انٹیلی جنس ایجنسیوں کے معاملات بھی بذریعہ انٹیریئر منسٹری طے ہوتے ہیں۔
بیرون ملک تعینات خفیہ معلومات اکٹھا کرنے والے سفارتی اہلکار اسی وزارت کو رپورٹ کرتے ہیں۔ انسانی سمگلنگ، غیر قانونی مسافر، جنگ اور حادثات سے متاثرہ افراد کی بحالی سب اسی وزارت کی ذمہ داریوں میں آتے ہیں۔
اسلام آباد کو ہر طرح سے چلانے والا ادارہ یعنی سی ڈی اے سیاسی نمائندگی سے محروم نظام میں کلیدی کردار رکھتا ہے۔ یہ بھی وزیر داخلہ سے ربط میں چلتا ہے۔ قومی سلامتی کی پالیسی جو ملک بھر میں تمام صوبوں اور وفاقی اختیار میں علاقوں پر لاگو ہوتی ہے، انٹیریئر منسٹر کے ہاتھ سے بنتی ہے۔ اس وزارت کا وزیر قوم کے سب سے اہم سلامتی سے متعلق فیصلہ ساز ادارے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا ممبر ہے۔
وزیر اعظم کو روزانہ کی بنیاد پر قومی سلامتی کو درپیش خطرات پر بریفنگ وزیر داخلہ دیتا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے تمام سیاسی، غیرسیاسی ہنگامے سے نمٹنا اسی وزارت کا کام ہے۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحدی کمیٹیز جو دونوں ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات کا اہم جز ہیں، اسی وزارت کے ذریعے چلتی ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان جس کی چند سال پہلے بڑی دھوم ہوا کرتی تھی اور جنرل راحیل شریف کو قوم کا مسیحا ثابت کرنے والے تمام حلقے ہر روز اسی کا ڈھول پیٹتے تھے، اسی وزارت کے ذریعے نافذ ہونا ہے۔ دوسرے ممالک سے خطرناک مجرموں کو بلوانے اور واپس بھیجنے کے سب معاملات وزارت داخلہ ہی طے کرتی ہے۔ گلگت بلتستان اور جموں و کشمیر کے پولیس افسران اسی وزارت سے ضرورت کے تحت کو آرڈی نیٹ کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں آپ یوں سمجھیں کہ وفاقی حکومت کے معیشت سے منسلک ادارے اور وزارتیں نکال کر تمام اہمیت اور طاقت کا مرکز یہ وزارت ہے۔
بعض کہنہ مشق بیورو کریٹس تو تمام وفاقی حکومت کی جان کو اس وزارت کے طوطے میں بند سمجھتے ہیں۔ اب اس ملک کے وزیر داخلہ شیخ رشید ہیں۔ جو عملاً وزیر اعظم پاکستان سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔ اس وزارت میں آنے کے بعد ان کے اہم ترین اقدامات میں سے ایک اسلام آباد میں کھلے سینیما کے ٹکٹ میں کمی کرنا تھا۔ اخبار میں چھپے بیان کے مطابق وزیر نے ہزار روپے کے ٹکٹ کو 50 روپے میں بدل دیا۔ یہ اہم تبدیلی لاتے ہوئے جو آرڈر جاری کیا اس کا لب لباب یہ تھا کہ میں وزیر داخلہ ہوں، میں نے یہ کہہ دیا ہے اور بس۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد اہم قومی ضرورت کے پیش نظر انہوں نے سی ڈی اے کے چیئرمین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ٹیلنٹڈ ہیں اور ان کو اس طرح کی مزید سہولیات بنانی چاہییں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہر شہری کا پہلا شناختی کارڈ مفت بنانے کی خوش خبری بھی سنائی۔ یہ نہیں بتایا کہ ابھی تک بننے والے کروڑوں پہلے شناختی کارڈوں پر جنہوں نے خرچہ کر دیا ہے کیا وہ پیسہ ان کو واپس ملیں گے یا نہیں۔
ایک اور اہم تبدیلی وزارت داخلہ کی پی آر او لالہ رخ کو تبدیل کرکے لائی گئی۔ یقیناً شیخ رشید ملک میں حقیقی انقلاب لانے کی باقاعدہ مہم کا آغاز کر چکے ہیں۔ سیاسی طور پر انہوں نے پی ڈی ایم کو سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے دیکھا اور یہ پیش گوئی کی کہ جس دن عمران خان نے سینیٹ الیکشن میں اکثریت حاصل کر لی تو کرپٹ مافیا کی چیخیں نکلیں گیں۔
شیخ رشید کی تعیناتی اس وژن کی تکمیل ہے جس کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان قوم کو اکثر باور کراتے رہتے ہیں۔ اس عظیم قوم کو علامہ اقبال کے تصور کائنات سے جوڑنے کے لیے جن شیر دلوں کی ضرورت ہے ان کو اکٹھا کرنے کا خوب بندوبست ہو رہا ہے۔ ہمارے عظیم اصلاف نے جو خواب دیکھے تھے ان کی تعبیر کی طرف ایسے ہی اقدامات اٹھانے کی ضرورت تھی۔ جو اڑھائی سال میں حزف اختلاف کی سازشوں کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے۔
مگر نجانے کیوں انتظامی عظمتوں کے نئے میناروں کی تیاری پر کچھ لوگ نالاں ہیں۔ اس اہم عہدے کے لیے پرویز خٹک کا نام بھی دیا گیا تھا جو آج کل وزیر دفاع جیسے بظاہر غیر اہم عہدے پر فائز ہیں۔ مگر شاید ان کی جہانگیر ترین کے ساتھ پرانی قربت اور خیبر پختونخوا میں ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ تجویز رد کر دی گئی۔
دوسری تجویز چوہدری فواد کے بارے میں تھی لیکن چونکہ وہ حزب اختلاف سے بات چیت کے حامی سمجھے جاتے ہیں اور کئی مرتبہ وزیر اعظم سے تنقیدی بیانات پر براہ راست ڈانٹ بھی کھا چکے ہیں، اس وجہ سے ان کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ شیخ رشید بہرحال ایک موزوں امیدوار تھے جنہوں نے یہ رتبہ پا لیا۔ اس ملک میں گذشتہ چند برسوں میں تعیناتیوں کے حوالے سے جو معیار بن گیا ہے شیخ رشید اس پر پورا اترتے ہیں۔ تمام قوم شیخ صاحب کی خصوصی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کی منتظر ہے۔
ہمیں ان کی سیلیکشن اور ان کے سیلیکٹرز پر بھرپور اعتماد کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ یہ تجویز بھی دینی چاہیے کہ شیخ رشید کسی بحرانی حالت میں وزیر اعظم بننے کے اہل بھی سمجھے جائیں۔ وزیر موصوف ان تمام اوصاف سے مالا مال ہیں جو نظریہ ضرورت کے تحت قوم کی خدمت کرنے میں انتہائی کار آمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ آہستہ آہستہ پاکستان بہترین ہاتھوں میں جا رہا ہے۔