پاکستانی نژاد کینیڈین کاروباری شخصیت تہور حسین رانا، جن پر 2008 میں انڈیا کے شہر ممبئی میں ہونے والے جان لیوا حملوں کی منصوبہ بندی میں مدد کا الزام ہے، جمعرات کو امریکہ سے حوالگی کے بعد نئی دہلی پہنچ گئے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ نے شدت پسندی کے کیس میں پہلی بار اس نوعیت کی منتقلی کرتے ہوئے تہور حسین رانا کو انڈیا کے حوالے کیا۔
ڈاکٹر سے کاروباری شخصیت بننے والے 64 سالہ تہور رانا کو ایسے حملوں سے منسلک الزامات کے تحت انڈیا کے حوالے کیا گیا جن میں 160 سے زیادہ لوگوں کی جان گئی۔
انڈیا کی انسداد دہشت گردی ایجنسی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ایک بیان میں کہا کہ ’این آئی اے نے مسلسل اور مربوط کوششوں کے بعد جمعرات کو کامیابی کے ساتھ اس مرکزی منصوبہ ساز کی حوالگی کو یقینی بنایا تاکہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔‘
امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی حوالگی کے خلاف دائر درخواستیں مسترد ہونے کے بعد انہیں انڈین سکیورٹی اداروں کی نگرانی میں انڈیا لایا گیا۔
انڈیا کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے بدھ کو کہا کہ تہور رانا کی حوالگی وزیرِاعظم نریندر مودی کی حکومت کی سفارتی سطح پر ’بڑی کامیابی‘ ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ ’انڈین سرزمین اور اس کے عوام کے خلاف جرم کرنے والوں کو واپس لانا انڈین حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘
ٹرمپ کا حوالگی کا اعلان
انڈیا نے جون 2020 میں باقاعدہ طور پر رانا کی حوالگی کی درخواست کی اور رواں سال فروری میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں مودی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران رانا کی حوالگی کا اعلان کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’امریکہ ایک عرصے سے انڈیا کی ان کوششوں کی حمایت کرتا رہا ہے جن کے تحت ان حملوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچایا جا سکے۔ وہ (رانا) اب ان کی تحویل میں ہیں اور ہمیں اس پیش رفت پر بہت فخر ہے۔‘
اے ایف پی کے مطابق 64 سالہ تہور حسین رانا کو سخت نگرانی میں انڈیا کے دارالحکومت کے قریب واقع ایک فوجی ایئربیس پر پہنچایا گیا، جہاں انہیں مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے حراست میں رکھا جائے گا۔
انڈیا نے رانا پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پاکستان میں قائم کالعدم تنظیم لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کے رکن ہیں جسے اقوام متحدہ نے ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دے رکھا ہے اور انہوں نے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کی۔
نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے کہا کہ ’امریکہ سے ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ تہور رانا کی کامیاب حوالگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔‘
ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس حوالگی کے لیے ’2008 کے ہولناک حملوں کے مرکزی منصوبہ ساز کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی خاطر برسوں تک مسلسل اور مربوط کوششیں کی گئیں۔‘
تہور رانا کو ڈنمارک کے اخبار زیلیندز پوستن کے دفاتر پر حملے کی سازش میں ملوث ہونے پر 14 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس اخبار نے توہین آمیز خاکے شائع کیے۔
تاہم پاکستان نے اس حوالے سے موقف اختیار کیا کہ ممبئی حملوں کا ملزم کینیڈین شہری ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے جمعرات کو میڈیا بریفنگ میں اس معاملے پر سوال کے جواب میں کہا کہ ’ تہور رانا کے معاملے پر ہم نے ان کی کینیڈین شہریت کے حوالے سے اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔ ہمارے ریکارڈ کے مطابق انہوں نے گذشتہ دو دہائیوں سے اپنے پاکستانی دستاویزات کی تجدید کے لیے درخواست تک نہیں دی۔ میں اس مؤقف کا اعادہ کرتا ہوں۔ اس معاملے پر مزید پیش رفت سے ہم آپ کو آگاہ کرتے رہیں گے۔‘
تہور رانا کون ہیں؟
اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق تہور حسین رانا پاکستانی نژاد تاجر، معالج اور امیگریشن کے شعبے میں کاروبار کرنے والے شخص ہیں جنہیں انڈیا کی تاریخ کے خوفناک ترین دہشت گرد حملوں میں سے ایک، 26 نومبر 2008 کے ممبئی حملوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔
ممبئی حملوں میں ان کے مبینہ کردار کا معاملہ کئی سال سے انڈیا اور امریکہ کے درمیان تنازعے کا سبب بنا رہا ہے۔
ممبئی حملوں کے دوران مسلح افراد نے کئی عمارتوں پر حملہ کیا تھا، جن میں 166 افراد جان سے چلے گئے تھے۔ تہور رانا پر الزام ہے کہ انہوں نے ان حملوں میں معاونت فراہم کی تھی۔
’ڈی ڈبلیو‘ کے مطابق تہور رانا کو 2013 میں امریکہ میں اپنے دوست ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے ساتھ ممبئی حملوں اور ڈنمارک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا مجرم پایا گیا تھا۔
ان مقدمات میں تہور حسین رانا کو امریکی عدالت نے 14 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ہیڈلی بعد میں وعدہ معاف سرکاری گواہ بن گئے تھے۔
پاکستانی نژاد کینیڈین شہری رانا کو 2009 میں امریکی ایف بی آئی نے اس وقت گرفتار کیا تھا، جب وہ ڈنمارک جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ انڈیا حوالگی سے قبل امریکہ کی جیل میں قید تھے۔