چودہ مرتبہ وفاقی کابینہ کا حصہ رہنے والے شیخ رشید احمد کو وزارت داخلہ کا قلمدان ملنے پر چہ مگوئیاں زبان زد عام ہیں کہ اس پندرہویں وزارت میں فرزند پوٹھوہار کا واحد ٹاسک حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو لگام ڈالنا ہو گا۔
جمعے کو وزارت داخلہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے چند گھنٹے بعد ہی شیخ رشید احمد نے میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کسی ٹاسک کے ملنے کی تردید کی ہے۔
یہ جاننے کے لیے کہ پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کے عین عروج کے وقت شیخ رشید کو وزارت داخلہ کا قلمدان کیوں سونپا گیا، انڈپینڈنٹ اردو نے تجزیہ کاروں اور حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے افراد سے گفتگو کی۔
ماہرین اس بات پر متفق نظر آئے کہ شیخ رشید کو داخلہ امور کی ذمہ داریاں دیے جانے کا واحد مقصد پی ڈی ایم کے ساتھ 'معاملہ کرنا' ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (لمز) میں پولیٹیکل سائنس کے استاد پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے خیال میں شیخ رشید ایک مضبوط آدمی ہیں اور باتوں کے علاوہ طاقت کا استعمال بھی جانتے ہیں۔
بقول ڈاکٹر رسول بخش: 'پی ڈی ایم کے احتجاج کے تناظر میں حکومت کے پاس ان سے بہتر چوائس کوئی دوسری نہیں ہو سکتی تھی۔'
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شیخ رشید ضرورت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو منظم اور متحرک کر سکتے ہیں۔ 'ان کے وزیر داخلہ بننے سے ایک تاثر یہ بھی جائے گا کہ سخت گیر آدمی آ گیا ہے۔'
دوسری جانب معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے خیال میں شیخ رشید پی ڈی ایم میں شامل حزب اختلاف کی مختلف جماعتوں کو مختلف طریقوں سے ڈیل کریں گے۔
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ 'پاکستان مسلم لیگ ن اور جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ فضل الرحمٰن کے ساتھ معاملات بزور طاقت طے کیے جائیں گے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی سے بوقت ضرورت مذاکرات بھی ممکن ہیں اور شیخ رشید یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔'
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کے پیپلز پارٹی کے ساتھ مراسم بہتر ہیں جبکہ مسلم لیگ ن سے ان کے تعلقات کافی عرصے سے خراب چل رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'شیخ رشید احمد زیادہ ووکل (vocal) ہیں جبکہ ان کی میڈیا ویلیو بھی موجود ہے۔ ایسا شخص ہی ان حالات میں بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔'
مظہر عباس کے خیال میں حزب اختلاف کی شدید مخالفت کے علاوہ شیخ رشید کو وزارت داخلہ کا قلمدان دیے جانے کی کوئی صلاحیت نظر نہیں آتی۔
انہوں نے کہا کہ شیخ رشید میاں محمد نواز شریف کے زمانے سے ریلوے کے وزیر ہیں اور پاکستان میں ریلوے کی حالت کوئی بہتر نہیں ہوئی۔ 'یہ تو طے ہے کہ انہیں پہلی وزارتوں میں کاکردگی کی بنیاد پر داخلہ جیسا اہم قلمدان نہیں دیا گیا۔'
معروف صحافی اور اینکر پرسن افتخار احمد بھی سمجھتے ہیں کہ شیخ رشید کو لانے کا واحد مقصد پیپلز پارٹی کو ختم کرنا اور مسلم لیگ ن کی لیڈرشپ کو مارنا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: 'شیخ رشید نے عمران خان کو کہا ہوگا کہ میں حزب اختلاف کو تباہ و برباد کر دوں گا اور انہیں وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے شیخ رشید اور عمران خان کے ماضی کے اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: 'سمجھ نہیں آتی کہ کوئی کیسے کسی کو ایک وقت میں اتنا ناپسند اور دوسرے وقت میں اتنا زیادہ پسند کر سکتا ہے۔ ویسے یہ ایک غیر معمولی صلاحیت ہے جو عام انسانوں میں نہیں پائی جاتی۔'
دوسری جانب سینیئر صحافی ایم ضیاالدین کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک کے باعث شدید دباؤ کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید کو وزیر داخلہ کی حیثیت سے لایا گیا ہے تاکہ 'وہ پی ڈی ایم سے معاملہ کر سکیں۔'
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 'تحریک انصاف میں سیاسی سمجھ بوجھ دوسری جماعتوں کی نسبت کم ہے اور اسی وجہ سے ان سے ایسے غلط فیصلے سرزد ہوتے ہیں۔'
شیخ رشید کی بحیثیت وزیر داخلہ تعیناتی کو غلط قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا: 'موصوف نے ہر وزارت میں غلطیاں کی ہیں اور داخلہ کے قلمدان کے ساتھ بھی ان سے غلطیاں سرزد ہوں گی۔'
ایم ضیا الدین نے دیگر تجزیہ کاروں سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید کو وزارت داخلہ کا قلمدان دینے کی واحد وجہ پی ڈی ایم سے نمٹنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'شیخ رشید احمد کی عسکری اداروں سے قربت ان کا پلس پوائنٹ ہے اور یہ امر بھی ان کی موجودہ ذمہ داریوں کی وجہ بنا ہوگا۔'