جب لاہور میں انارکلی کے تاریخی علاقے میں شکیل احمد کے گھر کے سامنے بلڈورز چلنے کا شور شروع ہوا تو انہوں نے اور ان کے ہمسایوں نے قریبی مزار میں جاکر پناہ لی۔ وہ اپنی جائیداد اور زمین کے نقصان پر مایوسی کا شکار تھے۔
علاقے کے دوسرے خاندانوں کی طرح 40 سالہ شکیل احمد کا کہنا تھا کہ وہ اپنی پراپرٹی مارکیٹ سے کہیں کم دام پر پنجاب حکومت کو فروخت کرنے پر مجبور تھے تاکہ پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر میں چینی سرمایہ کاری سے اورنج لائن میٹرو ٹرین کے منصوبے کے لیے راستہ بن سکے۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق اس منصوبے پر 1.8 ارب ڈالر کی لاگت آئی ہے۔ یہ ٹرین رواں برس اکتوبر میں چلنا شروع ہوئی، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے جنوبی ایشیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہری علاقے میں آلودگی میں کمی آئے گی لیکن اس سے سینکڑوں افراد کا مستقبل غیریقینی کا شکار ہو گیا ہے۔
شکیل احمد کا کہنا تھا: 'میں کہیں اور نہیں جانا چاہتا تھا۔یہ واحد مقام ہے جس کا مجھے زندگی میں علم ہے۔' آج کل انہوں نے درگاہ موج دریا کے پیچھے ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا ہے لیکن انہیں خوف ہے کہ علاقے میں لوگوں کی تیزی سے بڑھتی تعداد کی وجہ سے آنے والوں برسوں میں ان کا کرایہ زیادہ ہو جائے گا۔اب اس علاقے میں اورنج لائن ٹرین کا سٹیشن بن چکا ہے۔
اورنج لائن ٹرین کو چینی ریلوے 'نورن کو انٹرنیشنل' پاکستانی شراکت داروں کے ساتھ مل کر چلاتی ہے۔ یہ منصوبہ عالمی سطح پر بیجنگ کے ماس ٹرانزٹ کے دو درجن سے زیادہ نئے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ یہ تمام منصوبے ایک کھرب ڈالر کے بیلٹ روڈ منصوبے کا حصہ ہیں۔ایک دن میں اورنج لائن ٹرین سے اڑھائی لاکھ تک مسافر سفر کرتے ہیں اور منصوبے کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ سب سے سستا سفر ہے، جس پر ایک بار سفر کرنے پر 40 روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس منصوبے کونقل وحرکت کے جدید ترین طریقے کا آغاز قرار دیا جارہا ہے۔
انارکلی بازار کے سامنے میٹرو کے چمکتے دمکتے سٹیشن کے سامنے کھڑے 54 سالہ کفیل چوہدری نے کہا کہ اس ٹرین منصوبے سے پاکستان کی معیشت کو فائدہ ہوگا، جو علاقے کے دوسرے ملکوں کی طرح کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا: 'ہمارے پاس پاکستان میں اس قسم کے جدید بنیادی ڈھانچے کی بہت کم مثالیں ہیں۔اس طرح ریل گاڑیاں صرف یورپ میں ہیں لیکن اب پاکستان کے پاس بھی ایک ہے جس کے لیے ہم چین کے شکرگزار ہیں۔'
بے گھر ہونے والوں کو کم معاوضے کی شکایت
اورنج لائن کی وجہ سے خاص طور پر ٹرین کے روٹ کے ساتھ واقع تاریخی علاقوں میں بے گھر ہونے والے افراد کو خوف ہے کہ وہ بنیادی ڈھانچے کی تیزی سے ہونے والی ترقی کے نتیجے میں معاشی مسائل کا شکار ہو جائیں گے۔
سرکاری ملکیت مہاراجہ بلڈنگ کے باہر کھڑے ہو کر شکیل احمد کہتے ہیں: '10 لاکھ روپے میں ہمیں اس علاقے میں پھر کبھی جگہ نہیں ملے گی۔' ٹوٹ پھوٹ کا شکار مہاراجہ بلڈنگ میں ایک کمرے کے بیڈ روم میں پورے پورے خاندانوں نے رہائش اختیار کر رکھی ہے۔
میٹرو منصوبے کے لیے اس عمارت کا ایک حصہ منہدم کر دیا گیا تھا، جس سے متاثر ہونے والے مکینوں میں شکیل احمد بھی شامل ہیں، جنہوں نے اب عمارت کے بچ جانے والے حصے میں کمرہ کرائے پر لے رکھا ہے۔
آج اس عمارت کے سابق مکینوں کو احساس ہے کہ انہوں نے لاہور کے سب سے نمایاں اور مہنگے کمرشل علاقوں میں واقع اپنی جائیداد کی قربانی دی ہے۔ انہیں امید ہے کہ آنے والے برسوں میں ان علاقوں میں پراپرٹی کی قیمتیں بڑھیں گی لیکن وہ یہ جانتے ہیں کہ انہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاہور ڈولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے مطابق اورنج لائن کی وجہ سے بے گھر ہونے کے بعد اس عمارت میں رہنے والے 50 سے زیادہ خاندانوں کو ایک کمرے کے حساب سے یک مشت 10 لاکھ روپے دیے گئے، لیکن بہت سے مکین خوش نہیں ہیں۔
شکیل احمد کے مطابق انہیں مناسب معاوضہ نہیں ملا۔ انہوں نے مقامی حکام پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے تعمیراتی عمل کے دوران جگہ خالی کروانے میں اپنی مرضی کی۔
دوسری جانب اورنج لائن ٹرین کے روٹ کو عدالت میں چیلنج کرنے والے متحرک کارکنوں کے وکیل ضرغام لکھیسر کے مطابق علاقے کے مکینوں خاص طور پر کم آمدن والے لوگوں پر جائیداد فروخت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔
تاہم ایل ڈی اے کا مؤقف ہے کہ لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894کے تحت پنجاب حکومت کو زمین حاصل کرنے کا اختیار ہے۔یہ ایکٹ انگریز دور کا قانون ہے جس کے تحت حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ شہریوں کو معاوضہ اور پیشگی نوٹس دے کر ان کی زمین حاصل کر سکتی ہے۔
شہریوں کے مسائل
مہاراجہ بلڈنگ کا ایک حصہ گرائے جانے کے بعد اس کے مکینوں کو امید تھی کہ ان کا تعمیراتی مسئلہ حل ہو گیا لیکن تعمیراتی کام ابھی تک نامکمل ہے۔عمارت کے باہر ایک راستے پر آہنی چادریں پڑی ہیں جب کہ میٹرو ٹرین کے لیے درگاہ موج دریا کی مسجد گرائے جانے کے بعد علاقے میں عارضی مسجد بنا دی گئی ہے۔
40 سالہ ثمینہ نعیم دو بچوں کی والدہ ہیں اور اب بھی مہاراجہ بلڈنگ میں رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمارت محفوظ نہیں ہے اور اس کا ڈھانچہ مخدوش ہو چکا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ مکینوں کے پاس رقم نہیں ہے اس لیے پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ عمارت کی مرمت کروائے۔
بیرسٹر لکھیسر کے مطابق اورنج لائن ٹرین کی وجہ سے صرف علاقے کے لوگوں کی زندگی ہی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔