اورنج لائن ٹرین کیا چلی لاہور کے عوام کو ٹرین پر سفر کر کے شہر گھومنے کا موقع مل گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے بھی ٹرین کا سفر کیا مگر شاہزیب کے ساتھ جو نہ صرف ایک این جی او کے فنانس مینیجرہیں بلکہ ایم بی اے بھی کر رہے ہیں۔
'مجھے آفس جانا ہوتا ہے اور پھر آگے یونیورسٹی بھی، اس لیے میں پہلے کبھی بائیک پر جایا کرتا تھا یا زیادہ تر کریم پر۔ میرے روزانہ کے تقریبا 640 روپے خرچ ہوتے تھے۔ جس دن اورنج لائن ٹرین چلی اس سے اگلے روز ہی میں نے اس کا تجربہ کیا جو کامیاب گیا۔ میں اپنے گھر سے کسی لوکل ٹرانسپورٹ کے ذریعے چند منٹوں میں سلامت پورہ سٹیشن تک آتا ہوں اور یہاں سے ٹرین پر بیٹھ کے سات یا آٹھ سٹیشن دور چوبرجی اترجاتا ہوں۔ وہاں سے میرا دفتر اگر پیدل جائیں تو ایک منٹ میں آجاتا ہے۔ ٹرین پر آنے جانے سے میں روزانہ کی 600 روپے کی بچت کر رہا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ وقت کی بھی۔ ٹرین سے دفتر پہنچنے میں مجھے 20 منٹ لگے جبکہ ویسے جب میں آتا تھا تو 45 منٹ اور کبھی ایک گھنٹہ لگ جاتا تھا کیونکہ گاڑی ٹریفک میں پھنستی ہے، ٹریفک کے اشاروں پر رکتی ہے جس سے وقت ضائع ہوتا ہے۔'
شاہزیب نے ارونج لائن ٹرین کارڈ بھی بنوا لیا اور اس پر بھی انہیں بچت ملی، جیسے وہ پہلی رائڈ کے لیے جب کارڈ استعمال کرتے ہیں تواسی دن کی واپسی کی رائڈ پر انہیں کرائے میں دس فیصد ڈسکاؤنٹ ملتا ہے۔ اور تو اور ان کا یہ کارڈ سپیڈو بس اور میٹرو بس سروس میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
'کارڈ کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو بار بار ٹکٹ کاونٹر پر نہیں جانا پڑتا آپ بس سیدھا آتے ہیں کارڈ سکین کرتے ہیں اور ٹرمینل پر چلے جاتے ہیں۔ اس کارڈ کو ریچارج بھی کیا جاسکتا ہے۔ جیسے میں نے 130 کا کارڈ لوڈ کروایا تھا جبکہ میں نے رائڈز بھی لیں جس کے بعد میں نے اس میں دو روز بعد دو سو روپے کا ریچارج کروایا۔ حالانکہ ابھی اس میں پیسے تھے۔'
شاہزیب نے بتایا کہ جس دن وہ پہلی مرتبہ اس ٹرین میں بیٹھے تو انہوں نے تقریباً ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اس ٹرین میں دیکھا۔ 'خانہ بدوش بھی تھے، طالب علم بھی، یہاں تک کہ میں نے ڈاکٹرز اور وکیلوں کوبھی اس ٹرین میں سفر کرتے ہوئے دیکھا۔ ایک جو اچھی بات ہے کہ آپ اس ٹرین میں بیٹھ کر لاہور کے وہ مناظر دیکھ سکتے ہیں جو آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھے کیونکہ بیشتر جگہوں سے ٹرین شہر کے اوپر سے گزرتی ہے تو آپ چوبرجی دیکھ سکتے ہیں، لاہور ریلوے سٹیشن اور اس طرح کی بیشتر تاریخی عمارات اور دیگر نظارے۔ مزہ آتا ہے کافی۔'
شاہزیب کی بات درست تھی۔ انڈینڈنٹ اردو نے ٹرین میں سفر کرنے والے دیگر مسافروں سے بھی بات کی تو معلوم ہوا کہ ان میں سے بہت سے مسافر اکیلے یا اپنے گھروالوں کے ساتھ ٹرین کا سفر صرف سیر کی غرض سے کر رہے تھے تاکہ ایک تو وہ نئی ٹرین کے سفر کا مزہ لیں دوسرا لاہور شہر کو دیکھیں۔ ایک بزرگ خاتون نے بتایا کہ انہیں ٹرین میں ایسا مزہ آرہا ہے جیسے وہ کسی جہاز میں بیٹھی ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اورنج لائن ٹرین سٹیشنز کو انتہائی خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔ ٹرمینل پر جگہ جگہ مدد گار کھڑے کیے گئے ہیں جو مسافروں کا ٹرین سے فاصلہ برقرار رکھنے اور ٹرین پر چڑھنے اور اترنے کا طریقہ بتاتے ہیں کیونکہ ٹرین کا دروازہ سٹیشن پر رکنے کے تیس سیکنڈ کے بعد خود بخود بند ہو جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے اترنے والے مسافروں کو موقع دیں اس کے بعد سفر کرنے والے مسافر ٹرین پر سوار ہوں۔ ٹرین کے مختلف دروازے ہیں اس لیے کسی ایک دروازے پر مسافروں کا رش نہیں لگتا۔
ہر پانچ منٹ کے بعد سٹیشن پر ٹرین آتی ہے اس لیے مسافروں کو اس بات کا بھی ڈر نہیں کہ ٹرین چھوٹ گئی تو وہ کیا کریں گے۔ بس پانچ منٹ کا انتظار اور ٹرین پھر سے حاضر۔ ٹرین کے اندر بزرگوں کے لیے نشستیں مختص کی گئی ہیں اور جسمانی معذور افراد کے لیے بھی جگہ موجود ہے جہاں وہ اپنی وہیل چئیر کھڑی کر سکتے ہیں۔
شاہزیب کے لیے یہ ٹرین کسی نعمت سے کم نہیں مگر انہیں ایک بات کا ڈر بھی ہے: ' یہ ایک اچھی سہولت ہے بس مجھے یہ خوف ہے کہ یہ سہولت اس معیار کے مطابق کب تک چلے گی؟ اس ٹرین میں کھانے پینے کی اجازت نہیں ہے مگر میں نے ایک دن دیکھا کہ ایک شخص جوس پی رہا تھا اور اس کا جوس ٹرین کے اندر فرش پر گر گیا۔ ہمیں بطور عوام خود اس سہولت کی حفاظت کرنا ہو گی کیونکہ اس کا فائدہ ہمیں ہورہا ہے اس لیے اس کا خیال رکھنا بھی ہمارا فرض ہے۔'