امریکی اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ امریکہ صحافی ڈینیئل پرل کے قتل میں سزا پانے والے احمد عمر سعید شیخ پر امریکہ میں مقدمہ چلانے کے لیے تیار ہے، جنہیں پاکستانی عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اٹارنی جنرل جیفری روزن نے ایک بیان میں کہا: 'ہم اس طرح کے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے پاکستانی حکومت کے اقدامات پر شکر گزار ہیں تاکہ احمد عمر سعید شیخ اور مقدمے میں ملوث ان کے ساتھیوں کو جواب دہ ٹھہرانا یقینی بنایا جا سکے۔'
اٹارنی جنرل نے ملزم کی بریت کو 'دہشت گردی سے متاثرہ افراد کی توہین' قرار دیتے ہوئے مزید کہا: 'ان کوششوں کے کامیاب نہ ہونے کی صورت میں امریکہ عمر شیخ کو اپنی تحویل میں لے کر ان پر یہاں مقدمہ چلانے کے لیے تیار ہے۔ ہم ڈینیئل پرل کے اغوا اور انہیں قتل کرنے میں عمر شیخ کے کردار پر انصاف سے بچ نکلنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔'
احمد عمر سعید شیخ پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں، جنہوں نے لندن کے سکول آف اکنامکس میں تعلیم حاصل کی۔ انہیں ڈینیئل پرل کے اغوا کے چند روز بعد گرفتار کیا گیا تھا اور مقدمہ چلنے کے بعد انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے انہیں پھانسی کی سزا سنائی تھی جبکہ دیگر تین ملزمان فہد نسیم، سید سلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
رواں سال دو اپریل کو سندھ ہائی کورٹ نے عمر شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کرتے ہوئے اس کیس میں سزا پانے والے دیگر ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا، جس پر ان ملزمان کو نقضِ امن کے خدشے کے باعث نظر بند کر دیا گیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے بعد محکمہِ داخلہ سندھ نے 28 ستمبر کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11 کے تحت ملزمان کی نظر بندی کا حکم جاری کیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ملزمان کی ضمانت کے فیصلے کے بعد صوبائی حکومت نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے تمام ملزمان کو دی گئی سزائیں بحال کی جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں برس دو مئی کو ڈینیئل پرل کے والدین نے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کر کے استدعا کی تھی کہ ملزمان کی رہائی سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا دو اپریل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
تاہم سندھ ہائی کورٹ نے 24 دسمبر کو ڈینیئل پرل کے قتل کے الزام میں 18 سالوں سے قید عمر شیخ اور دیگر تین ملزمان کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
اے ایف پی کے مطابق ڈینیئل پرل کی موت کی تحقیقات کے بعد جنوری 2011 میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پرل پروجیکٹ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں خوفناک انکشافات کیے گئے اور بتایا گیا کہ پرل کے قتل میں غلط لوگوں کو سزا سنائی گئی۔
ڈینیئل پرل کی دوست اور وال سٹریٹ جرنل میں کام کرنے والی ان کی سابق ساتھی اسرا نعمانی اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر کی قیادت میں ہونے والی تحققیات میں دعویٰ کیا گیا کہ ڈینیئل پرل کو خالد عمر شیخ نے قتل کیا، جو نائن الیون 2001 کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ تھے، احمد سعید عمر شیخ نے نہیں۔
ڈینیئل پرل جنوبی ایشیا میں وال سٹریٹ جرنل کے بیورو چیف تھے۔ انہیں جنوری 2002 میں اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اسلامی عسکریت پسندوں کے بارے میں اپنی ایک سٹوری پر کام کر رہے تھے۔ تقریباً ایک ماہ بعد امریکی قونصل خانے کو ایک ویڈیو بھیجی گئی تھی، جس میں ان کا سر قلم ہوتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔