سات فروری 2019 کو برطانیہ کے سب سے بڑے بافٹا فلم ایوارڈز کی تقریب سے ٹھیک چار دن قبل مشہور فلم ’بوہیمین ریپسوڈی ‘کے ہدایت کار برائن سنگر کو صرف اس لیے نامزدگیوں کی فہرست سے باہر کردیا گیا کیوں ان پر جنسی ہراسانی کے الزامات تھے۔
اس سال پاکستان میں ’لکس سٹائل ایوارڈز‘ کی نامزدگیاں بھی تنازعے کا شکار ہیں کیونکہ لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ آخر ایسے فنکاروں کی نامزدگیوں کا کیوں دفاع کیا جارہا ہے، جن پر جنسی ہراسانی کے الزامات ہیں؟
تنقید کا آغاز گذشتہ ماہ 30 مارچ سے ہوا جب لکس سٹائل ایوارڈز کی نامزدگیوں کا اعلان کیا گیا۔
نامزد ہونے والوں میں علی ظفر کا بھی نام شامل ہے، جنہیں فلم ’طیفا ان ٹربل‘ میں بہترین اداکار کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ علی ظفر پر مشہور گلوکارہ میشا شفیع پچھلے سال جنسی ہراسانی کا الزام عائد کر چکی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سے فنکاروں نے آواز اٹھاتے ہوئے ان ایوارڈز کا بائیکاٹ کردیا ہے۔
کس نے اور کیوں بائیکاٹ کیا؟
پاکستانی فلم ’مور‘ کے ہدایت کار جامی نے خواتین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنا ایوارڈ بیچ سڑک رکھ کر چھوڑ دیا اور اپنی ٹویٹ میں ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ایک کباڑ والے نے انتہائی پھرتی سے سڑک پر پڑے لاوارث لکس سٹائل ایوارڈ کو اٹھا کر اپنے ٹھیلے پر رکھ لیا۔ جامی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں جنسی طور پر ہراساں ہونے والی خواتین کی کہانیوں پر یقین ہے اور ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔
Best Film Lux award goes to...... wait for it!!!!! @HUL_News @boycottluxstyleawards pic.twitter.com/WO1pn6rw2Y
— jami (@jamiazaad) April 24, 2019
اس فہرست میں ایک نام ماڈل ایمان سلیمان کا بھی ہے، جنہوں نے نامزدگیوں کی فہرست شائع ہونے کے اگلے ہی دن یعنی 31 مارچ کو اپنی نامزدگی سے الگ ہونے کا اعلان کردیا۔
ایمان کا کہنا تھا کہ وہ ایسے کسی بھی ایوارڈ شو کا حصہ نہیں بننا چاہتیں جس میں جنسی ہراسانی کے الزام کا سامنے کرنے والا شخص بھی شامل ہو۔
ایمان کے بعد معروف برانڈ ’جنریشن‘ نے یہ کہہ کر ایوارڈ شو کا بائیکاٹ کردیا کہ جنریشن کو ’فیشن ڈیزائن پریٹ‘ کی کیٹیگری میں نامزد کیا گیا تھا لیکن صرف اس وجہ سے کہ اس سال نامزدگیوں میں ایک ایسا نام بھی موجود ہے جس پر جنسی ہراسانی کا الزام ہے، جنریشن خود کو نامزدگیوں کی فہرست سے الگ کر رہا ہے۔
GENERATION will not attend this year’s Lux Style Awards where the brand has been nominated for Achievement in Fashion Design (pret), due to the inclusion of a nominee that has been repeatedly accused of sexual misconduct by multiple women.https://t.co/kPsYBzcbpl…
— GENERATION (@GENERATION_PK) April 22, 2019
میشا شفیع نے چونکہ علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا تھا لہذا انہوں نے بھی لکس سٹائل ایوارڈز کا بائیکاٹ کردیا۔ نا صرف یہ بلکہ انہوں نے بائیکاٹ کرنے والے تمام لوگوں کی تعریف بھی کی اور لکس سٹائل ایوارڈ کی جیوری سے درخواست کی کہ ان کے گانے ’میں‘ کو ووٹنگ سے ہٹا دیا جائے۔
میشا شفیع کے بعد سیف سمیجو کے راک بینڈ ’اسکیچز‘ نے بھی اپنی نامزدگی سے دست برداری کا اعلان کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ’می ٹو‘ مہم کی حمایت کرتے ہوئے پاکستانی خواتین کو سلام پیش کرتے ہیں کیوں کہ انہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود جنسی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھائی۔
اداکاروں کا بائیکاٹ پبلسٹی سٹنٹ؟
مشہور اداکارہ ایمان علی نے انسٹاگرام پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’سوشل میڈیا کے اس دور میں ہم بہت جلد لوگوں اور چیزوں کے حوالے سے اپنی رائے بنا لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس نے نئے فنکاروں کو بھی موقع دیا ہے۔ ایسے فنکارچند منٹوں میں عزت اور شہرت حاصل کرنے کے لیے اپنی باتوں سے سوشل میڈیا پر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
ایوارڈز جیوری کا اپنے دفاع میں بیان
انڈپینڈنٹ اردو نے جنسی ہراسانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے اداکار کی نامزدگی کے حوالے سے جب لکس سٹائل ایوارڈ کی جیوری کے ارکان کا موقف جاننا چاہا تو انہوں نے بات کرنے سے صاف انکار کردیا۔
ایک روز قبل جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ لکس سٹائل ایوارڈز جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والی خواتین کے لیے ہمدردی رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی نامزدگیوں کا بھرپور دفاع کرتے ہیں اور صرف جنسی ہراسانی کے الزامات کی بنیاد پر کسی بھی فنکار کی نامزدگی کو ختم نہیں کریں گے۔
لکس سٹائل ایوارڈز میں تعصب پسندی ہے: فائزہ حسن
فلم ’لوڈ ویڈنگ‘ کی اداکارہ فائزہ حسن کا کہنا ہے کہ لکس سٹائل ایوارڈز میں اصل فنکاروں اور اداکاروں کی قدر نہیں کی جاتی بلکہ یہ صرف قلیل مدتی سٹارز کے لیے ہیں۔
انہوں نے میشا شفیع کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے ساتھ کام کرچکی ہیں اور ان کی نظر میں میشا انتہائی باکردار خاتون ہیں، اس لیے علی ظفر پر ان کے الزامات غلط نہیں ہوسکتے۔
پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں جنسی ہراسانی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پہلے کے مقابلے میں اب یہ بہت عام ہوگیا ہے، خاص طور سے نئے فنکاروں کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جنسی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو خاموش کروا دیا جاتا ہے۔