کہتے ہیں ریاست ماں جیسی ہوتی ہے اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے جان تک لڑا دیتی ہے۔ ان کے خوشی اور غم میں برابر کی شریک ہوتی ہے۔ لیکن مچھ میں قتل کیے جانے والوں کی لاشیں سات دن تک حکومت کے سربراہ کا کوئٹہ کی ٹھٹھرتی ہوئی سردی اور منفی درجہ حرارت میں کھلے آسمان کے نیچے انتظار کرتی رہیں۔
حکومت کے سربراہ نے ان لاشوں کے ورثا سے ملنے سے انکار کیا اور انہیں بلیک میلر تک کہا۔ بعد میں وضاحتیں بےمعنی ہی رہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ بلیک میل کر بھی رہے تھے تو وزیراعظم کے ذاتی طور پر وہاں پہ جا کے ان کو پرسہ دینے میں کیا رکاوٹ تھی۔ عوام کو بتانے کی ضرورت ہے کہ لواحقین ان سے سوائے انہیں ملنے اور کس چیز کی طلب کر رہے تھے۔ کیا لواحقین این ار او مانگ رہے تھے جس کی وجہ سے وزیراعظم اپنے غیر منطقی اور غیر انسانی موقف پر ڈٹ گئے تھے؟
یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
نیوزی لینڈ میں جب مسلمانوں پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تو ان کی وزیر اعظم نے بغیر کسی شرط اور کسی کے کہنے کے اپنی قومی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے فوراً ورثہ کے ساتھ ان کے غم میں شریک ہوئیں۔ ہر ایک کو چاہے وہ عرب مسلمان تھا یا پاکستانی سبھی کو گلے لگا کر تسلی دی۔ انہوں نے تو جانے سے پہلے یہ نہیں کہا کہ لاشوں کو پہلے دفنا دیا جائے تو پھر وہ متاثرین اور لواحقین سے ملاقات کریں گی۔ مسلمان نہ ہونے کے باوجود وہ جنازوں میں بھی شریک ہوئیں۔
ہمارے وزیراعظم کو اپنے طرز حکمرانی اور طرز گفتگو پر جو حساسیت سے عاری نظر آتا ہے سنجیدہ نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ ہر وقت ریاست مدینہ کی باتیں تو کرتے ہیں مگر کیا ریاست مدینہ میں خلیفہ اس طرح کا رویہ اپنی عوام اور خاص طور پر ظلم کی شکار ایک برادری کے ساتھ روا رکھ سکتے تھے۔ انہیں اپنی جارحانہ انداز حکمرانی سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے اور ہر شخص کو اور ہر معاملے کو حزب اختلاف کی سازش نہیں سمجھنا چاہیے۔
اس المیے میں ہمارے لیے بہت سارے سبق ہیں۔ ہمیں حکومتی رویے اور اس کی مذہبی معاملات میں دخل اندازی کی پالیسی پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ تقریباً پچھلے 12 برسوں میں دو ہزار سے زیادہ ہزارہ پاکستانی میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسی کی دہائی سے پہلے پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کی ایسی بری حالت نہ تھی۔ آمر ضیا الحق کے دور میں ان کے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ریاست کی سطح پر مذہب کا استعمال شروع ہوا اور ریاست کی سرپرستی میں لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھارتے ہوئے انہیں افغان جہاد کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ اسی وقت ایرانی انقلاب نے بھی مذہب کو ریاست کی پالیسی کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان میں مذہبی معاملات میں ریاستی مداخلت اور کچھ مکاتب فکر کی ریاستی سرپرستی نے ان گروہوں میں جارحیت اور دوسرے مکاتب فکر اور مذاہب کے لیے عدم رواداری کے جذبے کو مضبوط کیا۔ مذہبی انتہا پسندی میں اس حد تک اضافہ کیا گیا کہ مختلف مکتبہ فکر کو کافر کہنے سے اور قابل قتل کہنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ ریاست کی دانستہ نظر اندازی اور کچھ مسلمان ممالک کے سرمایہ نے اس تقسیم اور نفرت کو اور ہوا دی۔
اس ریاستی سرپرستی اور انتہا پسندوں کی کارروائیوں سے صرف نظر کرنے کی وجہ سے فرقوں کی بنیادوں پر انتہا پسند تنظیمیں قائم ہوئیں اور ایک نا ختم ہونے والا خونی سلسلہ شروع ہوا جو اب تک باقاعدگی سے کسی نہ کسی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ہزارہ برادری پر 3 جنوری کا حملہ اسی المناک سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کے آدھے سے زیادہ ضلعوں نے 2001 کے بعد کسی نہ کسی طرح فرقہ وارانہ دہشت گردی کا سامنا کیا ہے۔ یہ مسلسل جاری مذہبی انتہا پسندی ہمیں اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے اور صرف یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو جانا کہ یہ سب کچھ بھارت کر رہا ہے کافی نہیں۔ ہمیں دوسروں پر اپنی ہر ناکامی کا ملبہ ڈالنے کی روایت کو ترک کرنا پڑے گا اور ان مسائل پر سنجیدگی اور غیرجانبدارانہ طریقے سے غور و خوص کرتے ہوئے انہیں حل کرنا ہوگا۔
ہماری ریاست کے متعلقہ اداروں کو پہلے قدم کے طور پر تمام مذہبی اور غیر مذہبی انتہا پسند تنظیموں سے کسی قسم کے بھی روابط منقطع کرنے ہوں گے۔ اور اگر کچھ اہلکار انفرادی طور پر ان رابطوں میں ہیں تو ان رابطوں کو یا کسی قسم کی مدد کا سلسلہ فوراً ختم کرنا ہوگا۔ انتہا پسندوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اداروں کو اپنا طریقہ کار جاری رکھنا چاہیے لیکن کسی قسم کی ریاستی مدد یا دوستانہ رابطوں کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان انتہا پسندوں اور تنظیموں کے خلاف اقدامات میں ایسی ہی تیزی آنی چاہیے جیسے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف نیب پھرتیاں دکھا رہی ہے۔
انتہا پسند تنظیموں کے خلاف فوراً جامع قانون سازی کی بھی ضرورت ہے۔ اس میں حکومت کو قیادتی کردار ادا کرتے ہوئے ایسے اقدامات تجویز کرنے چاہیے جن سے انتہا پسندی کی روش اور اس کو پروان چڑھانے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جا سکے۔ ایسے قوانین میں ریاستی اہلکاروں کے خلاف بھی اقدامات شامل ہونے چاہیں جو خفیہ طور پر یا اپنے ذاتی ایجنڈے کی بنیاد پر ان انتہا پسند گروہوں کی مدد کرتے ہیں یا انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
فرقہ وارانہ تنظیموں کی بیرونی امداد پر مکمل پابندی ہونی چاہیے اور جو ممالک اس طرح کی مدد کرتے ہیں وہاں سے رقومات کی ترسیل کی سخت نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب سے بھی انتہا پسندی کو فروغ دینے والے مواد کو فورا ہٹھانا چاہیے۔ پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ یہاں پر بین المذاہب رواداری اور فرقوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو فروغ دیا جائے۔