یہ اس وقت کی بات ہے جب عمران خان نہ وزیراعظم تھے نہ اپوزیشن لیڈر بلکہ سِرے سے سیاست دان ہی نہیں تھے صرف کپتان تھے وہ بھی بس کرکٹ کے میدان کے۔
یہ کافی پرانی بات ہوگئی مگر عمران خان کے جاننے والوں میں سے کئی ایک کی یادداشت میں آج بھی تازہ ہے۔
نواب آف کالا باغ کے صاحبزادے ملک اعظم خان سے عمران خان کی اچھی گہری دوستی تھی اور کافی طویل عرصے تک رہی۔ نواب صاحبان کے محل میں اکثر و بیشتر دوستوں کی مخصوص محفلیں جما کرتیں اور عمران خان ہمیشہ خصوصی مہمانوں کی فہرست میں سرفہرست رہتے۔
عمران خان ناصرف ان محفلوں میں شرکت کرتے بلکہ کئی دن تک نوابی محفل میں قیام بھی کیا کرتے۔ ایسی ہی ایک محفل اور ایسے ہی ایک قیام کے دوران ایک بد نصیب رات ایسی بھی آئی کہ رات دو بجے نواب ملک اعظم خان کے خاص ملازم نے دھڑ دھڑ دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔
نواب صاحب کے خاص گہرے دوست عمران خان نے دروازہ کھولا تو ملازم نے ہانپتی کانپتی گھبرائی آواز میں انہیں نواب ملک اعظم خان کی ہلاکت کی خبر سنائی۔ عمران خان نے تھوڑی دیر ملازم کے چہرے کو دیکھا پھر اچھا کہا واپس کمرے کے اندر مُڑتے ہوئے دروازہ بند کیا اور اپنا سامان پیک کرنا شروع کر دیا۔
دس منٹ کے اندر اندر عمران خان سامان پیک کرکے واپس اپنے گھر روانگی کی تیاری پکڑ چکے تھے۔
محل کی راہداری میں نواب صاحب کے اسی خاص ملازم نے جس نے موت کی اطلاع دی تھی، عمران خان کا سامان گاڑی میں رکھوایا اور گاڑی دھول اڑاتی محل سے باہر نکل گئی۔
نہ خان صاحب نے اپنے خاص گہرے دوست جس کے ہاں وہ مہمان تھے، ان کی اچانک موت کی وجہ پوچھی، نہ اظہار افسوس کیا، نہ جنازے کا پوچھا کہ کب ہوگا، نہ جنازے میں شرکت کی، نہ قُل پڑھے نہ چالیسویں پر دوست کو یاد کیا بلکہ اس کے بعد سرے سے نواب صاحبان کے خاندان سے ہی ایک طرح کا قطع تعلق ہو گیا گویا کبھی ایک دوجے کو جانتے ہی نہ تھے۔
ایسے ہی ہمارے بھی ایک جاننے والے نے (جن کا تعلق میانوالی سے ہی ہے) کچھ عرصہ پہلے یہ واقعہ مِن و عن یوں ہی بیان کیا اور حالیہ افسوسناک واقعات کے تناظر میں ایک بار پھر یاد آگیا تو ساتھ ہی سوچا کہ شکر ہے نواب صاحب کے اس خاص ملازم نے کہیں جرات کی گستاخی کرکے خان صاحب سے پوچھا نہیں کہ آپ اپنے گہرے پرانے دوست کے جنازے میں شرکت نہیں کریں گے؟...... وگرنہ بعید نہیں کہ خان صاحب نے اسے بھی بلیک میلر ہی قرار دے دینا تھا۔
عظیم فنکاروں نصرت فتح علی خان اور دلدار پرویز بھٹی کے ساتھ عمران خان کی گہری دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دونوں نے ان گنت مواقع پر عمران خان سے دوستی کا بھرپور حق نبھایا بلکہ شوکت خانم ہسپتال کے لیے نصرت فتح علی خان صاحب اور دلدار پرویز بھٹی صاحب نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی بڑی کیمپین چلائی اور کئی شوز اور کنسرٹ اِس کاز کے لیے بنا پیسوں کے بھی کروائے جس سے ہسپتال کی فنڈ ریزنگ میں بہت زیادہ مدد ملی۔
لیکن افسوس کہ ان دونوں عظیم فنکاروں کی وفات پر ان کا گہرا دوست عمران خان ان کے جنازوں میں شریک نہ ہوا۔
شکر ہے کسی نے خان صاحب کو ان دو عظیم شخصیات کی ان گنت مہربانیاں اور دوستانہ خلوص یاد نہ دلایا اور جنازوں میں شرکت کی درخواست یا عدم شرکت کا شکوہ نہ کیا وگرنہ بعید نہیں کہ خان صاحب نے ایسوں کو بھی بلیک میلر ہی قرار دے دینا تھا۔
عمران خان صاحب کے انتہائی قریبی حلقے یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ انعام اللہ نیازی کے بھائی عرفان نیازی جو کہ ایم پی اے بھی رہ چکے ہیں اور جن کے گھر پر خان صاحب طویل عرصہ قیام پذیر رہتے رہے اور بڑا گہرا تعلق رہا جب ان کی وفات ہوئی تو عمران خان صاحب نے جنازے میں شرکت نہ کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عزیز ترین دوست، دہائیوں کے ساتھی، سیاسی جماعت کے بانی ساتھیوں میں سے ایک، ہر اونچ نیچ کے غم گسار نعیم الحق کی وفات پر ان کے جنازے میں بھی شرکت نہ کرنا تو ہر ایک کی یادداشت میں تازہ ہوگا۔
سو جنازوں میں شرکت نہ کرنا عمران خان صاحب کے معمول میں سے ایک معلوم ہوتا ہے جس کی وجہ صرف خان صاحب اور ان کا خدا ہی جانتا ہوگا۔ سو اے ہزارہ برادری والو! تم نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ تم سے نہ دوستی نہ علیک سلیک۔ تم سے نہ کوئی ’فائدہ‘ نہ سیاسی نفع۔ تم نے بھلا کیسے آس لگا لی وزیراعظم عمران خان سے کہ وہ تمہارے شہیدوں کو دفنانے آئے۔
کتنے ہی گہرے اور ’فائدہ مند‘ دوستوں کے جنازوں میں عمران خان شریک نہ ہوا تم تو ویسے بھی رعایا وہ حکمران..... تم محکوم وہ حاکم..... تم بھلا کیسے حکم چلا سکتے ہو کپتان پر... کیسے بلیک میل کر سکتے ہو کہ خان آئے گا تو ہی جنازے پڑھائے جائیں گے۔
دیکھو یہ نیا پاکستان ہے یہاں کے نئے وزیراعظم کو کوئی بلیک میل کرکے ’فائدہ‘ حاصل نہیں کر سکتا اور ویسے بھی کوئلوں کی سیاہ کانوں میں دن رات کام کرنے والے تمہارے بیٹے بھائی باپ شوہر سارا سال محنت کر کر کے بھی اتنا نہ کما سکتے جتنا ’معاوضہ‘ تمہیں نئے پاکستان کی نئی حکومت دے رہی ہے۔
پانچ لاکھ، دس لاکھ کبھی زندگی بھر اتنی بڑی رقم ایک ساتھ نہ دیکھی ہوگی اتنا بڑھا دیا ہے ’معاوضہ‘.... اب اور کیا چاہیے.....اب اور کیسی بلیک میلنگ... یہ سطور تحریر کرتے کرتے ایک اور خبر حکومتی ذرائع کی طرف سے ’لگوائی‘ اور ’چلوائی‘ جا رہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا خصوصی طیارہ بس کوئٹہ جانے کے لیے تیار ہے اور کسی بھی وقت وزیراعظم روانہ ہو سکتے ہیں تو اس امید کے ساتھ کالم کا یہیں پر اختتام کرتی ہوں کہ خدا کرے اس بار یہ خبر جعلی نہ ہو درست ہو اور وزیراعظم عمران خان کوئٹہ جا کر لواحقین کی دلجوئی کریں انہیں یقین دلائیں کہ ریاست ان کے تحفظ کے لیے موجود ہے، ایک ہفتے بعد شہدا کی تدفین ہو سکے ان کے جنازے پڑھا کر انہیں سپرد خاک کیا جا سکے اور عمران خان کے ٹریک ریکارڈ کی طرح ہم سب غلط ثابت ہو سکیں۔
خدا کرے۔ آمین
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔