خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں واقع ہزارہ یونیورسٹی کی اکیڈیمک کاؤنسل نے یونیورسٹی کے لیے خاص ڈریس کوڈ کے حوالے سے ایک نیا ضابطہ ترتیب دیا ہے جس پر طلبہ سمیت اساتذہ کو بھی عمل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ تاہم جہاں حکومت نے اس کا دفاع کیا ہے وہیں طلبہ اور سماجی کارکنوں نے اسے ’غیر ضروری‘ اور ’تنگ نظری‘ پر مبنی قرار دیا ہے۔
ہزارہ یونیورسٹی میں ڈریس کوڈ لازم قرار دینے کا یہ فیصلہ گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان کی جانب سے 29 دسمبر کو یونیورسٹی کے اکیڈیمک کونسل کے ایک اجلاس میں طے پایا تھا، جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ نے چھ جنوری کو اعلامیہ جاری کر دیا۔
اس اعلامیے میں یونیورسٹی کے طلبہ خصوصاً طالبات کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ یونیورسٹی میں کالے، نیلے اور سلیٹی رنگ کا عبایہ پہن سکتی ہیں اور اس کے ساتھ دوپٹہ اور چادر لے سکتی ہیں۔ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انہیں بغیر آستین کے لباس پہننے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ طالبات کو جینز، چست لباس، یا کرتا پہننے، اور میک اپ، زیورات اور بھاری ہینڈ بیگ کے استعمال سے بھی منع کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خواتین کی طرح طلبہ کو بھی لباس کے حوالے سے احکامات جاری کرتے ہوئے انہیں پھٹی جینز، چست لباس، شارٹس، چپل اور زیور پہننے سے منع کیا گیا ہے جبکہ لمبے بال رکھنے یا بالوں سے چوٹی بنانے یا داڑھی میں سٹائل بنانے کی بھی پابندی ہے۔
گورنر شاہ فرمان کی جانب سے طلبہ کے ڈریس کوڈ سے متعلق جاری ہونے والے فیصلے کے مطابق یہی اصول یونیورسٹی کے سٹاف پر بھی لاگو ہوں گے اور وہ صرف استری شدہ یونیفارم، موزوں جوتے اور جرابیں، واسکٹ یا جیکٹ پہن کر ہی داخل ہو سکیں گے۔
اس اعلامیے کے منظر عام پر آنے کے بعد صوبائی حکومت نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ڈریس کوڈ پر عمل پیرا ہونے سے یونیورسٹی کا ماحول پروقار ہو گا اور والدین پر مالی اور نفسیاتی بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب اس معاملے پر وزیر اعلیٰ کے مشیر کامران بنگش سے اس تائید کی وجہ پوچھی کہ حکومت کو اس قسم کا فیصلہ لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی، تو ان کا کہنا تھا گورنر کو کچھ طلبہ اور والدین کی جانب سے درخواست کی گئی تھی کہ امیر غریب کی تفریق ختم کرنے اور ماحول بہتر بنانے کے لیے یونیفارم کو لازم قرار دیا جائے۔
In the meantime, Hazara university goes ahead with moral policing! pic.twitter.com/rvQ3smF6nj
— Faizullah Jan (@faizjan) January 8, 2021
انہوں نے کہا کہ ’گورنر نے یہ فیصلہ خالص نیک نیتی سے کیا تھا تاکہ طلبہ و طالبات فیشن میں مقابلوں کی بجائے تعلیمی سرگرمیوں پر دھیان دیں۔‘
تاہم کامران بنگش نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گورنر نے صرف ڈریس کوڈ کے احکامات جاری کیے تھے جس میں پھٹی جینز یا دیگر تفصیل کا کوئی ذکر نہیں ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا: ’تعلیمی اداروں کا ڈسپلن ٹھیک کرنے کے لیے انہوں نے صرف یونیفارم کو لازم قرار دیا تھا، لیکن ہزارہ یونیورسٹی اس کو کچھ زیادہ آگے لے کر گئی ہے۔ جہاں تک ڈسپلن کی خاطر یونیفارم کے کلچر کو فروغ دینے کی بات ہے تو اس میں ایسا کیا غلط ہے؟‘
وزیر اعلیٰ کے مشیر نے بتایا کہ طلبہ کی توجہ تعلیمی سرگرمیوں پر لگانے اور امیر غریب کا فرق ختم کرنے کے علاوہ ڈریس کوڈ لاگو کرنے کا ایک مقصد ہراسانی کی روک تھام ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ لباس سے متعلق اس فیصلے کا اطلاق صوبے کی دیگر یونیورسٹیوں پر بھی ہو گا۔
گورنر اور ہزارہ یونیورسٹی کے فیصلے پر تنقید
ہزارہ یونیورسٹی میں جاری کیے گئے اعلامیے پر نہ صرف سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کا ایک طوفان اٹھا ہے بلکہ خود یونیورسٹی کے اندر بھی بےچینی پھیل گئی ہے۔
Welcome to Naya pakistan.
— Ahsan (@AhsanAzad05) January 7, 2021
Hazara University issued a notification that will regulate the dressing codes of the students. Jeans and t shirt ,jewellry, are strickly banned on campus.instead of focusing on research, academia , harresment issues.
Madrasa hai ya university? Disg pic.twitter.com/zg4IsawLm5
اسی یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ فیصلہ ’نہایت تنگ نظری‘ پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک غریب طالب علم کے لیے یونیفارم سے زیادہ سستی جینز ہے جو لنڈے سے کم قیمت پر مل جاتی ہے اور جس میں نہ استری کرنے اور نہ روزانہ دھونے کا جھنجھٹ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’گورنر صاحب نے تعلیم سستی کرنے کی بجائے مہنگی کر دی ہے۔ اگر ڈسپلن اتنا ہی ضروری ہے تو اپنے دفتر بھی یونیفارم میں جایا کریں اور داڑھی رکھنا شروع کر دیں۔‘
دوسری جانب سوشل ایکٹویسٹ فرحت آصف کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کا جاری کردہ اعلامیہ ’نہایت مضحکہ خیز اور غیر ضروری‘ ہے۔
It was a university of KP where lynching of Mashal Khan took place and the university looked the other way. #DressCode #HazaraUniversity https://t.co/kszBqXK3SJ
— Tania Saleem Palijo (@TaniaPalijo) January 9, 2021
انہوں نے کہا: ’میں اقدار کی قدردان ہوں لیکن ہزارہ کی خواتین پہلے ہی رسم ورواج کی پابند رہی ہیں۔کوئی عبایا پہنتی ہے تو کوئی دوپٹہ اوڑھ لیتی ہے۔ اس نکتے کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی تمام توجہ تعلیم پر ہونی چاہیے نہ کہ اس بات پر کہ کس نے کیا پہنا ہے۔ انہوں نے تو مردوں پر بھی کسی کالعدم تنظیم کی طرح پابندیاں لگانا شروع کر دی ہیں۔‘
فرحت آصف نے کہا: ’بھاری ہینڈ بیگز کا نکتہ بھی غیر ضروری اور غیر سنجیدہ ہے کیونکہ بھاری ہینڈ بیگ میں صرف میک اپ کا سامان ہی نہیں ہوتا اس میں خواتین کی نسوانی اور دیگر ضروریات کا سامان بھی ہو سکتا ہے۔‘