خطے میں بہت تیزی کے ساتھ نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے اس صف بندی میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ کیا ہماری کوئی پالیسی ہے یا ہم کٹی پتنگ کی طرح ہوا کے رحم و کرم پر ہیں وہ جہاں چاہے لے جائے؟ بدلتی دنیا میں ہماری کوئی اہمیت اور افادیت موجود ہے یا ہم تنہا ہوتے جا رہے ہیں؟
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے
وقت نے کروٹ بدل لی۔ سرد جنگ کا زمانہ گزر چکا۔ جہاد افغانستان کے بعد اب دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بساط بھی افغانستان سے بڑی حد تک لپیٹی جا رہی ہے۔ امریکہ کے لیے ہماری تزویراتی اہمیت اب وہ نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست بھی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ترکی کے اتحادی قطر کے سعودی عرب سے تعلقات بحال ہو چکے، یو اے ای اسرائیل کو تسلیم کر چکا اور ترکی نے اسرائیل میں سفیر پھر سے تعینات کر دیا۔ عرب دنیا کی خارجہ پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی آ چکی جس کے اثرات مشرق وسطی تک ہی محدود نہیں جنوبی ایشیا تک پھیلے ہوئے ہیں جہاں بھارت عرب قربت ایک نئے دور سے گزر رہی ہے۔ میرے جیسا ایک عام پاکستانی گردو نواح کی ان تبدیلیوں کو دیکھتا ہے اور سوچتا ہے ہم کہاں کھڑے ہیں؟
بین الاقوامی برادری میں کسی بھی ملک کی اہمیت کا بنیادی پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ملک بین الاقوامی امورمیں کتنا متعلق (Relevant) اور کتنا اہم ہے۔ یعنی دنیا کو مختلف معاملات میں اس ملک کی کس قدر ضرورت ہے۔ یہ ضرورت ہی اس کی افادیت اور اس کی اہمیت کو طے کرتی ہے۔ ہمیں داخلی سیاست کی صف بندی سے بے نیاز ہو کر ایک پاکستانی کے طور سوچنا ہو گا کہ بین الاقوامی برادری کے لیے ہماری اہمیت اور افادیت کتنی ہے؟
افغانستان میں حالات بدل رہے ہیں۔ حتمی تعین تو نئے امریکی صدر کی پالیسی سامنے آنے پر ہی ہو گا لیکن امکان یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں افغانستان میں شاید امریکہ اس حد تک دخیل نہ رہے جیسے ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ یعنی پاکستان پر اس کا انحصار کم ہو رہا ہے۔ یہ انحصار جتنا کم ہو گا پاکستان کے لیے مسائل اتنے ہی بڑھیں گے۔ فوجی اور معاشی معاونت کے حوالے سے بہت کچھ پہلے تبدیل ہو چکا ہے۔ اس میں مزید نا خواشگوار تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔ جو جغرافیائی اہمیت ہمارے لیے امکانات پیدا کرتی تھی، اب وہ بہت سارے چیلنجز پیدا کرنے جا رہی ہے۔
معاشی طور پر بھی ہم اس قابل نہیں کہ دنیا کو کچھ دے سکیں۔ ملک میں کوئی صنعت ایسی نہیں جو ہمیں دنیا کی ضرورت بنا سکے۔ 70 سالوں میں قرض کا پہاڑ کھڑا کر دیا گیا لیکن ملک میں ڈھنگ کی کوئی صنعت ایسی نہیں جو ہمارے لیے زر مبادلہ کے حصول کا ذریعہ بن جاتی۔ احتساب کے غیر ضروری نعروں نے سرمائے کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ معاشی امکانات سکڑ گئے ہیں۔ مڈل کلاس کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ یعنی نہ ہم انڈسٹری کی دنیا میں کوئی ایسا قابل قدر اثاثہ رکھتے ہیں جو دنیا کی ضرورت ہو نہ ہمارے پاس بھارت کی طرح بہت بڑی کنزیومر مارکیٹ ہے جو دنیا کی کمزورری بن جائے۔ سعودی عرب نے قرض کی واپسی کا تقاضا کیا تو ہم نے چین نے کمر شل لون لے کر وہ قرض لوٹا تو دیا لیکن ایسا کب تک چلے گا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمارے پاس ’امت مسلمہ‘ کا ایک سپنا ہوا کرتا تھا اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے ہم خود کو اسلامی دنیا کا بقلم خود قائد سمجھتے تھے۔ یہ بھی سراب ہی نکلااور عرب ممالک سے تعلقات میں اب ایسا تناؤ ہے جس کا آج سے قبل تصور ہی ممکن نہیں تھا۔ اس کی وجوہات پر ایک سے زیادہ آرا ہو سکتی ہیں لیکن سامنے کی حقیقت یہی ہے کہ تعلقات میں کشیدگی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
کشمیر جیسے ایشو پر پاکستان کو او آئی سی سے مطلوبہ تعاون میسر نہیں ہو سکا تو اس کا مطلب ہے دنیا ہی میں نہیں، فی الوقت ہم ’امت مسلمہ‘ میں بھی تنہا ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ نے کہنے کو کہہ تو دیا کہ اگر او آئی سی کشمیر پر وزرائے خارجہ کا اجلاس نہیں بلاتی تو پاکستان مسلم دنیا کے ان وزرائے خارجہ کا خود اجلاس بلا لے گا جو پاکستان سے متفق ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن کیا یہ قابل عمل بھی ہے؟
او آئی سی میں عرب ممالک کی غیر معمولی حیثیت ہے۔ ان سے ہٹ کر او آئی سی کا اجلاس بلایا بھی جاتا تو کون سا ملک آتا؟ مسلم دنیا میں کون ہے جو سعودی عرب جیسے دولت مند ملک سے بے نیاز ہو کر معاملہ کر سکے؟ ملائیشیا اور سعودی عرب کے تعلقات کو دیکھیں تو شاید ملائیشیا بھی یہ بھاری پتھر نہ اٹھا سکتا۔ ہم دیکھ چکے کہ بھارت کے دباؤ کے تحت سارک ممالک یہاں آنے سے معذرت کر لیتے ہیں۔ کیا اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ہم دعوت دیں اور او آئی سی میں سے دو تین ممالک کے سوا کوئی نہ آئے؟
ہماری ایسی کسی بھی دعوت پر ترکی اور ایران کے سوا کس نے آنا تھا؟ اور یہ دونوں ممالک مسلم دنیا میں جاری داخلی کشمکش کے فریق ہیں۔ کیا پاکستان توازن کی پالیسی چھوڑ کر اس کشمکش میں کسی فریق کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب معاشی مجبوریوں کے تناظر میں تلاش کر لیں یا اپنے سماج کی فرقہ وارانہ فالٹ لائنز کو سامنے رکھ کر تلاش کر لیں، جواب نفی میں ہی آئے گا۔
عرب دنیا کے بھارت سے تعلقات کا ایک نیا باب شروع ہو چکا ہے۔ معاشی امکانات کی اس دنیا میں، یہ قابل فہم بات ہے۔ ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا عالمی برادری سے مسلم دنیا تک، ہماری کتنی اہمیت رہ گئی ہے اور سات بر اعظموں میں کتنے ممالک ایسے رہ ہیں جن کی نظروں میں ہماری کوئی افادیت ہواور وہ ہمیں بوجھ سمجھنے کی بجائے اپنے معاشی اور تزویراتی مفادات کے حصول کے لیے ہمارے دست تعاون کے خواہشمند ہوں؟
ایک چین رہ جاتا ہے جو دوست بھی ہے اور ایک عالمی قوت بھی۔ لیکن وہ بھی مشکل میں قرض تو دیتا ہے لیکن بھاری شرح سود پر وہ ایک کمرشل لون ہوتا ہے۔ سعودی عرب جیسی معاونت نہیں ہوتی۔ سی پیک کے حوالے سے معاملات پیچیدہ نہیں ہوئے تو یہ ضرور محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ایک پراسرار سی سست روی کا شکار ضرور ہیں۔
مایوس ہونے کی بلاشبہ کوئی ضرورت نہیں، لیکن خود احتسابی کی شدید ضرورت ہے۔ ہر چیلنج کے ہمراہ امکان بھی ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنا ہو گی۔ وہی چارلس ڈکنز کی بات کہ:
.It was the best of times, it was the worst of times
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔