لیا سیڈو کا نام تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے فرانس کے گھرگھر میں پہچانا جاتا ہے۔
2008 میں 23 سال کی عمر میں لیا سیڈو فلم ’لا بیل پرسون‘ کے لیے سیزر ایوارڈ کی سب سے زیادہ ہونہار اداکارہ کی کیٹیگری میں نامزد ہوئیں۔ سیزر ایوارڈ فرانس میں آسکر ایوارڈ کے برابر سمجھے جاتے ہیں۔ 2008 سے اب تک لیا سیڈو نے اپنی قابلیت کو بر قرار رکھا ہے، البتہ انگریزی بولنے والے حاضرین کو یہ جاننے میں مزید وقت لگا۔
اب جب وہ اگلی جیمز بانڈ فلم میں ’بانڈ گرل‘ میڈالن سوان کے طور پر اپنا کردار دوبارہ نبھانے کی تیاری کر رہی ہیں تو وہ ہالی وڈ میں ایک اہم شخصیت بن چکی ہیں۔
پیرس میں ایک کاروباری شخصیت کے ہاں پیدا ہونی والی لیا ہیلن سیڈو فورنئیر ڈی کلوسن نے عقلمندی سے اپنا نام مختصر کرکے لیا سیڈو رکھ لیا۔ ’لا بیل پرسون‘ میں سکول گرل کا مرکزی کردار حاصل کرنے سے پہلے انہوں نے موسیقی کی ویڈیوز اور مختصر فلموں سے اپنے کریئر کا آغاز کیا تھا۔
’لا بیل پرسون‘ کے بعد انہوں نے بلاک بسٹر انگریزی فلمیں ’مشن ایمپاسیبل: گوسٹ پروٹوکول‘ اور ’انگلوریس باسٹرڈز‘ میں دو مختصر کردار ادا کیے۔
لیکن جب انہوں نے اداکارہ اڈیل اگسارکوپولس کے ساتھ زبردست اور دل فریب فلم ’بلو ایز دا وارمیسٹ کلر‘ میں مرکزی کردار نبھایا تو ان کا ستارہ دنیا بھر میں چمکنے لگا۔ اس کے بعد سے وہ ہدایتکار ویس انڈریسن کی ’دا گرینڈ بڈاپسٹ ہوٹل‘، یورگوز لانتھیمس کی ’دا لابسٹر‘، زیویر ڈالن کی ’ایٹس اونلی دی اینڈ آف دا ورلڈ‘ اوریقیناً جیمز بانڈ فلم ’سپیکٹر‘ میں کام کر چکی ہیں۔
ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی کو بانڈ گرل کا کردار دہرانے کا موقع ملے، لیکن لیا سیڈو ایک خاص قسم کی اداکارہ ہیں جو کم ہی پائی جاتی ہیں۔ یہ ہیں ان کے پانچ اہم ترین کردار:
لا بیل پرسون (2008)
ڈائریکٹر کریسٹوفر ہونر نے یہ فلم تب نانے کا فیصلہ کیا جب فرانسسی صدر نکلس سرکوزی نے اس ناول لا مذاق اڑایا جس پر یہ فلم مبنی ہے۔ صدر نے 17 ویں صدی کے ناول ’لا پرنسز دی کلیوس‘ کو حقیقی زندگی سے دور کہا۔ ڈائریکٹر ہونر نے اس ناول کو جدید انداز پہ منتقل کیا اور اس وقت کی غیر معروف لیا سیڈو کو ایک سکول گرل کے طور پر کاسٹ کیا جس کا اپنے ایک اطالوی استاد کے ساتھ معاشقے کا آغاز ہوتا ہے۔
اس فلم کے ٹائٹل کا لفظی ترجمہ ایک خوبصورت انسان کے طور پر کیا گیا، لیکن ابھی سیڈو کو کامیابی کے لیے اس سے بھی زیادہ کچھ کرنا باقی تھا۔
اس فلم کو قابل قدر ستائش نہ ملی، ان کی کارکردگی کو نیویارک ٹائمز کے فلمی ناقد اے او سکاٹ نے غیر معمولی بیان کیا، گو کہ فلم کو ملے جلے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا، لیکن فلمی ناقدین کی جانب سے ان کے کردار کو بھرپور پذیرائی ملی۔
سسٹر: (2012)
سوئس سکئی ریزورٹ کے قریب رہنے والے مفلس بہن بھائی کی یہ حساسیت سے بھرپور کہانی آسکر کے لیے چنی جانے والی غیر ملکی فلموں میں سے ایک تھی۔ اس کہانی میں لیا سیڈو ایک بڑی بہن کا کردار نبھا رہی ہیں جو کہ ان دو افراد پر مبنی کنبے کی کفیل ہیں مگر بے روز گار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں انتہائی خود غرض بھی دکھایا گیا ہے جس وجہ سے پیٹ بھرنے کا بوجھ ان کے 12 سالہ بھائی پر آن پڑتا ہے جسے وہ امیر سکائی ڈائیورز کا سامان چرا کر پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ طبقاتی فرق کو ظاہر کرتی ایک فلم تھی اور اپنے کردار میں تمام تر برائیوں کے باوجود بھی لیا سیڈو نے اس میں انسانیت ڈھونڈ نکالی۔
دا لابسٹر: (2015)
2018 میں آسکر ایوارڈ جیتنے والے یونانی ہدایت کار یورگوز لانتھیمس کی یہ فلم سنجیدہ معاملات میں مزاح ڈھونڈنے کی ایک انہونی کوشش تھی۔ یہ ایک ایسی دنیا تھی جہاں کنوارے لوگوں کو کوئی جیون ساتھی ڈھونڈنا ضروری تھا ورنہ وہ اپنی مرضی کے جانور میں تبدیل ہو جاتے۔ فلم میں لیا سیڈو ایک بے رحم باغی گروہ کی سرغنہ ہیں۔ وہ لانتھیمس کی فلموں سے اس قدر متاثر تھیں کہ انہوں نے فلم سائن کرنے سے پہلے سکرپٹ پڑھنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ لیا سیڈو کہتی ہیں: ’میں ایسے ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کر رہی ہوں جو اپنے آپ میں ایک دنیا ہیں۔ میرے لیے سنیما ایک زبان ہے اور ہر کوئی اسے اپنے انداز میں سمجھتا ہے۔‘
دا گرینڈ بڈاپیسٹ: 2014
جنگ کے شکار خیالی یورپی ملک زبروکا میں موجود ’دا گرینڈ بڈاپسٹ ہوٹل‘ عجیب لیکن دلچسپ حس مزاح رکھنے والے ہدایت کار ویز اینڈریسن کی تخلیق ہے۔
لیا سیڈو اس فلم میں ایک ہوٹل ملازمہ کا کردار ادا کر رہی ہیں اور تقریباً ہر منظر میں وہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ نظر آرہی ہیں۔ یہ فلم گو کہ کمرشل اور ناقدین کو بھا جانے والی تھی لیکن لیا سیڈو کے فینز ان کے کم سکرین ٹائم سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے۔
بلیو ایس دا وارمیسٹ کلر: (2013)
نیلے بالوں والی آرٹ سٹودنٹ لیا سیڈو (ایما کے کردار میں) اور اڈیل ایگزاروپولس، سکول کی ایک شرمیلی لڑکی جو اس سے محبت میں مبتلا ہوتی ہے، دونوں ہی اپنے کرداروں پر اس حد تک حاوی ہیں کہ فلم کی ریلیز کے ساتھ ہی سب کو چونکا دیا۔ جب کانز فلم فیسٹیول میں اس فلم کو ایوارڈ دیا گیا تو جیوری، جس میں سٹوین سپیلبرگ بھی شامل تھے، کی جانب سے یہ اصرار کیا گیا کہ دونوں اداکارائیں فلم کے ڈائریکٹر عبدل لطیف کچھہچی کے ساتھ ایوارڈ وصول کرنے خود سٹیج پر آئیں۔
اس فلم کے ساتھ کچھ تنازعات بھی وابستہ ہیں۔ ناول نگار جولی مارو جن کے ناول پر یہ فلم بنائی گئی کے مطابق فلم میں دونوں اداکاروں کے باہمی تعلق کو جس انداز میں دکھایا گیا اس نے اس کو ایک ہم جنس پرست خواتین پر مبنی کہانی میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیا سیڈو کی جانب سے بھی ہدایت کاری کو لے کر اس فلم کے تجربے کو تذلیل پر مبنی قرار دیا گیا۔ لیکن فینز کی جانب سے ان کی اس فلم میں اداکاری کو بہترین قرار دیا گیا۔