عراقی حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسند گرو داعش نے دارالحکومت بغداد کی ایک مصروف مارکیٹ میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے جس میں 32 افراد ہلاک ہوئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ تین سال میں ملک میں ہونے والا پہلا خود کش حملہ ہے اور اس سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ داعش واپس سرگرم ہو رہی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق داعش نے جمعرات کو ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے جمعے کو اپنے ٹیلی گرام چینل پر ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ اس کے دو ارکان نے بغداد کے طیران سکیوئر میں خود کو اڑا لیا۔
جاعے وقوعہ پر پہنچنے والے روئٹرز کے صحافیوں نے وہاں پھیلا خون اور جوتے دیکھے۔
طبی حکام کہنا ہے کہ اس حملے میں 110 افراد زخمی ہوئے۔
ایک عینی شاہد نے بتایا: ’ایک (بمبار) آیا، زمین پر گر گیا اور کہنے لگا کہ ’میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے‘ اور ساتھ ہی اس نے اپنے ہاتھ میں ڈیٹونیٹر کو دبا دیا۔ وہ فوراً پھٹ گیا۔‘
ایک دور میں خودکش حملے بغداد میں روز کا معمول تھے مگر 2017 میں داعش کے جنگجوؤں کی شکست کے بعد ان میں حالیہ سالوں میں کمی آئی تھی، جس کے ساتھ ساتھ داراحکومت میں زندگی بھی معمول پر آگئی تھی۔
شہری دفاع کے سربراہ میجر جنرل خادم سلمان نے صحافیوں کو بتایا: ’داعش اس حملے کے پیچھے ہو سکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کسی چھت سے لی گئی ویڈیو جو سوشل میڈیا پر بہت چلی میں ایک اور ممکنہ دھماکہ دیکھا گیا جس سے لوگ ادھر ادھر پھیل گئے۔ آن لائن شیئر کی گئی تصاویر میں کئی ہلاک اور زخمی افراد کو دیکھا گیا مگر روئٹرز ان کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔
جمعرات کا حملہ اسی مارکیٹ پر ہوا جہاں جنوری 2018 میں بھی ایک حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں 27 ہلاک ہو گئے تھے۔
وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق مصطفی الکاظمی نے جمعرات کے حملے پر اعلیٰ سکیورٹی حکام کے ساتھ ہنگامی ملاقاتیں کی۔ سکیورٹی فورسز کو تعینات کر دیا گیا اور اہم سڑکوں کو مزید حملے روکنے کے لیے بلاک کردیا گیا۔
فوج کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق وزیر اعظم نے ملاقات کے بعد اہم سکیورٹی اور پولیس کمانڈروں، انٹیلیجنس امور کے نائب وزیر داخلہ، انسداد دہشت گردی اور انٹیلیجنس کے ڈائرئکٹر وفاقی پولیس فورس کے کمانڈر کو برطرف کردیا۔