پاکستان میں گذشتہ سال ایک طوفان برپا کرنے والی اور مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کے نتیجے میں بائیکاٹ اور پروڈیوسر کے لیے قتل کی دھمکیوں کا باعث بننے والی ایک فلم رواں سال آسکرز کی نامزدگی کے لیے ملک کی آفیشل اینٹری بن گئی ہے۔
فلم ’زندگی تماشا‘، جس کی رونمائی گذشتہ سال بوسان فلم فیسٹیول میں ہوئی تھی، کو شدت پسند عناصر نے توہین آمیز قرار دیا تھا، جن میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان بھی شامل ہے۔ اس پارٹی کا کہنا تھا کہ یہ فلم ’لوگوں کو اسلام اور پیغمبر اسلام سے دور کر سکتی ہے۔‘
فلم نے گذشتہ سال جنوری میں ریلیز ہونا تھا مگر اس کا ٹریلر سامنے آنے کے بعد شدت پسندوں کا شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور مظاہروں، کھلے خطوط، کئی بار نظرثانی اور حکومتی سینسرشپ کے باعث ریلیز کی تاریخ میں بار بار تاخیر ہوتی رہی۔
جولائی 2020 میں پاکستانی سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے اس فلم کی ریلیز کی منظوری دے دی تھی لیکن یہ فیصلہ بھی قانونی چارہ جوئی میں پھنس گیا۔ لاہور میں بنی یہ فلم ’ایک خاندان کی گہری تصویر ہے جبکہ یہ ان زمینی خداؤں پر تنقیدی تبصرہ بھی ہے، جو ہمارے ذاتی مشغلوں پر روک ٹوک کرتے ہیں۔‘
فلم میں ایک ادھیڑ عمر مسلمان شخص کو دکھایا گیا ہے جو پیغمبر کی مدح میں نعتیں لکھتا ہے اور ایک گانے پر رقص کرنے کی ان کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد معاشرے سے قطع تعلقی کا سامنا کر رہا ہے۔
فلم کے تخلیق کاروں نے فلم کی بنیاد یوٹیوب پر سامنے آنے والی ایک حقیقی ویڈیو پر رکھی ہے۔ پروڈیوسرز میں سے ایک سرمد کھوسٹ کا ’ورائٹی‘ میگزین سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا: ’اس فلم کا مرکزی خیال ایک آن لائن حقیقی مواد سے لیا گیا ہے اور میں اس شخص کے لیے بہت برا محسوس کرتا ہوں۔ وہ صرف رقص کر رہا تھا۔ وہ کچھ اور نہیں کر رہا تھا۔‘
پاکستان میں توہین مذہب کا موضوع بہت حساس سمجھا جاتا ہے اور اکثر اس کے الزام کا سامنا کرنے والوں کو شدت پسند گروہ ہدف بناتے رہتے ہیں۔ اسلام کے لیے کسی بھی قسم کی ممکنہ اہانت کا مقدمہ توہین رسالت قوانین کے تحت چلایا جاتا ہے جس میں سب سے سنگین سزا سزائے موت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرمد کھوسٹ ’ہم سفر‘ جیسا مشہور ڈراما بنانے کے وجہ سے پہلے ہی کافی معروف ہیں۔ انہوں نے فلم کا ٹریلر ریلیز ہونے کے بعد ٹوئٹر پر انکشاف کیا تھا کہ انہیں ’درجنوں دھمکی آمیز کالز اور پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔‘
سرمد کھوسٹ نے ’دا گارڈین‘ کو بتایا تھا: ’میرا فون نمبر لیک کیا گیا، مجھے سر قلم کرنے کی بے شمار تصاویر بھیجی گئیں۔‘ انہوں نے کہا: ’میں نے اس فلم میں اپنے 18 سال کا تجربہ استعمال کیا تھا۔ میں کچھ سنسنی خیز نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ہر قسم کے ڈرامے کو اس فلم سے دور رکھا گیا تھا۔‘
سرمد کھوسٹ نے اس فلم پر آنے والی لاگت خود ادا کی تھی۔ فلم سازوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ان کی فلم پاکستان میں مقامی ناظرین نہیں دیکھ سکتے جن کے لیے یہ فلم بنائی گئی تھی۔
اخبار ’ڈان‘ کے مطابق شریک فلم ساز کنول کھوسٹ کا کہنا ہے: ’وہ سب غم جو زندگی تماشہ نے مجھے دیا ہے اس نے آرٹ کی طاقت میں میرے یقین کو بحال کر دیا ہے۔ آرٹ کو وہ ظاہری طاقت جسے زندگی مکمل انداز میں دہرا سکتی ہے۔ میرے لیے یہ اعلان بہت خوشی کا باعث اور سرنگ کے آخر میں روشنی جیسا ہے۔ میں نے یہ فلم پاکستان میں اور سب سے اہم پاکستان اور اپنے لوگوں کے لیے بنائی ہے اور یہ صدمہ کے میرے لوگ اس فلم کو دیکھنے سے محروم ہیں میرے فنکارانہ شعور پر بہت بھاری ہے۔‘
© The Independent