دنیا میں انصاف نہیں۔ نہ ہی کوئی اچھائی کو پرکھنے والی آنکھ رہ گئی ہے۔ کوشش کو کوئی نہیں دیکھتا۔ ہر کوئی نتیجے کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے۔ کوشش کے نمبر ہوتے تو عمران حکومت دنیا میں انتظام ریاست سنبھالنے والی فہرست میں پہلی پوزیشن پر ہوتی۔ دیکھیں انہوں نے ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے کیسے کیسے پہاڑ کھودے۔
ان گنت پریس کانفرنس کیں، سینکڑوں ٹویٹس کیے۔ وزیر اعظم عمران خان نے تو حد کر دی، تین سال سے کرپشن کے نقصانات پر قوم کو اتنے لیکچر دیے کہ اب ان کا ہر اگلا جملہ سامعین و ناظرین پر پہلے سے ہی عیاں ہوتا ہے۔ اور تو اور منہ پر ہاتھ بھی پھیرا، قسمیں کھائیں۔ اتنی کوشش، ایسی سر توڑ جہدوجہد، اتنی محنت، واہ واہ ہونی چاہیے مگر بدنیت نقاد خواہ مخواہ نتائج پر توجہ دے کر خوش خبری کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس میں حکومت کا کیا قصور کہ 2017 میں پاکستان کا کرپشن زدہ ممالک کی فہرست میں 117واں نمبر تھا اور تین سال میں اب 124 پر آ گیا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کو صرف اس حد تک اہمیت دی جانی چاہیے کہ اس نے وزیر اعظم کی پسندیدہ شخصیت جسٹس جاوید اقبال کے تحت چلنے والے نیب کی مقامی عہدیدار سے تعریف کروائی۔ باقی سب اول فول ہے۔
ہمیں تسلی رکھنی چاہیے کہ وزیر اعظم اور ان کے دوست ادارے کرپشن کے خلاف جس طرح برسر پیکار ہیں اور جیسے ان کی ٹیم تندہی سے اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں دن رات ایک کر رہی ہے سرخرو ہونا ہمارا حق ہے۔ بین الاقوامی رپورٹوں میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے تذکرے ہمیں اپنے مقصد سے ہٹا نہیں پائیں گے۔ ہمارا جہاد جاری رہے گا بےشک کرپشن میں اضافہ ہوتا رہے۔
کچھ ایسا معاملہ دوسرے اداروں میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کوئی یہ یاد نہیں کرتا کہ چند سال پہلے پاکستان ٹیلی وژن کا کیا برا حال تھا۔ ورکرز احتجاج وغیرہ تو نہیں کرتے تھے لیکن خرابیاں بہت تھیں۔ آج نعیم بخاری کو اس ادارے میں لانے کی بہترین پالیسی نے بے شک عدالتی کارروائیوں اور اندر کے آلائشیوں کو باہر آنے کا لامتناعی سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ مگر آپ اس عظیم کوشش کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے۔
ابھی نعیم بخاری پی ٹی وی میں نہیں اور ادارہ بےشک اندرونی خلفشار کا شکار ہے اس کے چلانے والے ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر ہر دوسرے اخبار میں کالک اچھالتے رہے ہیں۔ مگر یہ ادارہ بہتری کی طرف ہی جا رہا ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے پاکستان ریلویز کو سعد رفیق کے چنگل سے چھڑا کر شیخ رشید کی اعلی قیادت میسر کر دی گئی تھی۔ حکومت کی طرف سے اس اہم عوامی سفر کے ذریعے کو پہلے کی نسبت پیسوں کی مدد بھی بڑھائی گئی۔ فکر کی بات نہیں کہ اگر اس کے خسارے میں پچھلے چار سالوں کی نسبت کہیں زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کا منافع پچھلے سالوں کی نسبت کم ہو گیا ہے، حادثات کی شرح بڑھ گئی مگر شیخ صاحب نے ایک عظیم قائد ہونے کا ثبوت ضرور دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نئے ریلوے منسٹر کو اگر پاکستان ریلویز کا دیوالیہ پن نظر آ رہا ہے تو یہ ان کا حسن نظر ہے۔ شیخ رشید بھی درست کہتے ہیں جب وہ ریلوے میں انقلابی تبدیلی پر خود کو شاباش دیتے ہیں۔ اعظم سواتی بھی بالکل صحیح ہیں جب وہ اس ادارے کی معاشی بدحالی کو اگلے نو ماہ میں تبدیل کر کے فخر پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں وزرا سچ بول رہے ہیں۔ پاکستان ریلویز دیوالیہ پن کے قریب بھی اور منافع بخش ادارہ بھی بن چکا ہے۔ شیخ رشید نے بہترین کام کیا اور اب اعظم سواتی دوبارہ سے بہترین کام پر کمر کس رہے ہیں۔
ایک ادارہ بیک وقت تباہ حال اور بہترین ہو سکتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ملک کی معیشت سر کے بل نیچے جانے کے باوجود آسمان کی طرف بھی جا رہی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے قرضے نہ لینے کی پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہم نے تاریخی طور پر تین سال میں سب سے زیادہ قرضے بھی لے لیے ہیں۔
اسی طرح جیسے دفاعی طور پر ملک کو ہر طرح سے استحکام فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہم ہر وقت خطرات میں بھی گھرے ہوئے ہیں۔ ہماری سرحدیں محفوظ بھی ہیں اور سرحد پار سے خطرات کا شکار بھی۔ دہشت گردی کی کمر بھی توڑ دی ہے مگر تشدد پھیلانے والے سرگرم بھی ہیں۔ فساد کو رد بھی کر دیا ہے اور اس کے خلاف مسلسل نبرد آزما بھی ہیں۔
نتائج سے ظاہر ہوتے ہوئے تضادات خون پسینہ ایک کر کے ملک کو چلانے کی جستجو کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتے۔ اگر اس دنیا میں اچھائی کو جانچنے کا کوئی عمرانی معیار ہوتا تو پاکستان کی عوام خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوتی۔ وہ یہ مان جاتی کہ نوکریاں غائب بھی ہو رہی ہیں اور حاضر بھی ہیں۔
آٹا، چینی، گھی، گوشت، دالیں، سبزیاں، انڈے، دوائیاں، پٹرول، بجلی، گیس، انصاف اور کرونا (کورونا) ویکسین ان کی پہنچ میں نہ ہونے کے باوجود ان کے ہاتھ میں ہیں۔ براڈ شیٹ کمپنی کو پیسے اس حکومت نے جاری تو کیے ہیں لیکن قصور پچھلی حکومت کا ہے۔ کاوے موسوی نواز شریف خاندان کے ایک بلین ڈالرز کے بارے میں جو بھی کہہ رہا ہے وہ غلط ہونے کے باوجود درست ہے لیکن اس کے علاوہ اس کے باقی تمام بیانات ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی بڑھتی کرپشن کی رپورٹ کی طرح جھوٹ پر مبنی ہے۔ یعنی وہ جھوٹا بھی ہے اور سچا بھی۔ معصوم بھی ہے اور چالاک بھی۔
نواز شریف خاندان کے پاس خفیہ ایک بلین ڈالرز ہیں بھی اور نہیں بھی۔ یہ کامیابیاں صرف سمجھ و دانش رکھنے والوں پر آشکار ہوتیں ہیں جو ناقص العقل نتائج کی بحث میں الجھ جاتے ہیں ان کو اندھیروں کے علاوہ کچھ دیکھائی نہیں دیتا۔ تبدیلی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی کہ پہلے آصف علی زرداری کے گھوڑے سیب کا مربہ کھایا کرتے تھے اور اب گورنر کا کتا پروٹوکول کے ساتھ گاڑی میں سفر کرتا ہے۔
گھوڑوں پر تنقید سے کتوں کی تعریف تک تبدیلی کا یہ سفر جاری رہے گا۔ بس آپ دعا کرتے رہیں کہ نئے پاکستان کو چلانے والی جوڑی سلامت رہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔