انسانی روبوٹ صوفیہ جو سعودی عرب کی شہریت حاصل کرنے اور دنیا پر غلبہ پانے کے لطیفوں کی وجہ سے مشہور ہے، جلد ہی کمرشل بنیادوں پر استعمال ہونے جارہا ہے۔
اس روبوٹ کو تیار کرنے والی ہانگ کانگ کی کمپنی ہانسن روبوٹکس 2021 میں اس کے مزید چار ماڈلز تیار کرے گی۔ ریسرچرز نے پیش گوئی کی ہے کہ کرونا وبا کی وجہ سے روبوٹکس کی صنعت میں مزید مواقع پیدا ہوں گے۔
کمپنی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ ہانسن کا کہنا ہے کہ ’کووڈ 19 کی دنیا میں لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مزید خود کار نظام کی ضرورت ہو گی۔ صوفیہ اور تیاری کے مراحل میں موجود ہانسن روبوٹس انسانوں جیسا ہونے کی وجہ سے بہت انوکھے ہیں۔ یہ اس وقت کے دوران بہت فائدہ مند ہو سکتے ہیں جب لوگ بری طرح سے سماجی تنہائی اور اکیلے پن کا شکار ہیں۔‘
ہانسن روبوٹکس رواں سال ’گریس‘ نامی ایک روبوٹ بھی لانچ کر رہی ہے، جسے صحت کے شعبے کے لیے تیار کیا گیا ہے جبکہ اس کے علاوہ کمپنی فضائی اور فروخت کے شعبوں کے لیے بھی روبوٹس تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ہانسن کا سال 2021 میں ’ہزاروں‘ روبوٹس فروخت کرنے کا ارادہ ہے، جن میں بڑے اور چھوٹے دونوں قسم کے روبوٹس شامل ہوں گے۔ کمپنی کی جانب سے کوئی مخصوص اعداد و شمار نہیں جاری کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوشل روبوٹکس کے پروفیسر جان ہورن، جن کی ریسرچ میں صوفیہ پر کیا جانے والا کام بھی شامل تھا، کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن وبا کی وجہ سے انسانوں اور روبوٹس کے درمیان تعلقات میں تیزی آ سکتی ہے۔
ہانگ کانگ پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کے پروفیسر ہورن کے مطابق: ’میں دیکھ سکتا ہوں کہ یہ وبا ہمیں روبوٹس کو مارکیٹ میں جلد لانے میں مدد دے گی کیونکہ لوگوں کو اندازہ ہو چکا ہے کہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔‘
دوسری بڑی کمپنیوں کی مصنوعات بھی وبا سے لڑنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔ سافٹ بینک روبوٹکس کے پیپر روبوٹ کو ان لوگوں کی نشاندہی کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، جو ماسک نہیں پہنتے تھے۔ چین میں ’کلاؤڈ مائنڈز‘ نامی روبوٹکس کمپنی نے کرونا وائرس کی وبا کے دوران ووہان میں فیلڈ ہسپتال بنانے میں بھی مدد فراہم کی تھی۔
وبا سے قبل روبوٹس کے استعمال میں اضافہ دیکھا جا رہا تھا۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف روبوٹس کی رپورٹ کے مطابق 2018 سے 2019 کے درمیان دنیا بھر میں روبوٹس کی پیشہ ورانہ خدمات کی فروخت میں 32 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 11 اعشاریہ دو ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔
اس رپورٹ میں نیوز ایجنسیز کی معاونت شامل ہے۔
© The Independent