مدرسہ بیت السلام صوبہ پنجاب کے شہر تلہ گنگ سے باہر میانوالی روڈ پر واقع ایک منفرد اور انوکھا سکول ہے، جہاں دی جانے والی تعلیم دینی اور مغربی کورسز کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔
یہاں نہ صرف حفظ قرآن اور درس نظامی کے کورسز کروائے جاتے ہیں بلکہ بچے او لیول، اے لیول اور میٹرک بھی کرتے ہیں۔ سونے پہ سہا گہ یہ کہ ساری تعلیم بالکل مفت فراہم کی جاتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ کسی قسم کی ٹیوشن فیس نہیں لی جاتی بلکہ رہائش اور کھانا پینا بھی بغیر کسی معاوضے کے دیا جاتا ہے۔
تقریباً ایک ہزار بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والا یہ مدرسہ 2000 کے عشرے میں اس وقت قائم ہوا، جب اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے مولانا عبدالستار نے کراچی میں پہلا بیت السلام قائم کیا۔ چند سال بعد اس کی تلہ گنگ شاخ کا افتتاح کر دیا گیا۔
بیت السلام تلہ گنگ کے منتظم مفتی وقار نے بتایا کہ مدرسے کے اخراجات امت کی طرف سے حاصل ہونے والے عطیات سے پورے کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی بزنس کمیونٹی اس سلسلے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔
اس مدرسے میں داخلہ سخت میرٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے اور تحریری امتحان کے بعد ہی کامیاب طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
او لیول کے طلبہ کو انگریزی زبان کے کورسز بھی کروائے جاتے ہیں، جب کہ اے لیول کے بعد طلبہ اگر چاہیں تو درس نظامی کے آٹھ سالہ کورس میں داخہ لے سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں پہلے سال عربی زبان پڑھائی جاتی ہے۔
لیولز کے طلبہ کے لیے مدرسے اور ہاسٹلز میں ایک دوسرے سے انگریزی میں بات کرنا لازمی ہے، جب کہ درس نظامی پڑھنے والے صرف عربی میں گفتگو کر سکتے ہیں۔
لیولز پڑھنے والے طلبہ کو روبوٹکس کا مضمون بھی پڑھایا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مضمون عام طور پر ملک کے مہنگے اور بڑے سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
دس سے گیارہ سال کے بچوں کو یہاں حفظ قرآن بھی کروایا جاتا ہے۔ جب کہ علاقے کی بچیوں کے لیے دینی تعلیم کے چھوٹے چھوٹے کورسز بھی متعارف کروائے گئے ہیں۔
بیت السلام میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں کے بچے زیر تعلیم ہیں، جب کہ چند ایک نونہال سندھ اور کشمیر سے بھی ہیں۔
تقریباً ڈیڑھ سو ایکڑ پر پھیلے رقبے پر مدرسے کی دوسری عمارتیں بھی زیرِ تعمیر ہیں، جن میں کلاس رومز اور ہاسٹلز کے علاوہ لڑکیوں کا پورشن بھی شامل ہے۔
مدرسہ بیت السلام میں اساتذہ کی تعداد 50 سے زیادہ ہے اور ان میں دینی تعلیم دینے والے استادوں کے علاوہ جدید علوم کے ماہر بھی شامل ہیں۔