مرشد ہمیں کرپٹ بھی سسٹم نے کر دیا

بڑی دلچسپ چیز ہے سسٹم۔ سرکار کی بنائی وہ بھول بھلیاں جس میں دروازہ ڈھونڈنے والا عام شخص اپنا سر پٹختا رہ جاتا ہے، سِرا نہیں ملتا۔

سسٹم وہی کہ کوئی بھی سسٹم نہیں چلے(اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


مرشد! کیا کہا آپ کو سسٹم نہیں پتا؟ سسٹم یہ ہے کہ کوئی بھی سسٹم نہ چلے۔

مرشد! سسٹم کا ہم سے پوچھیں تو پھر سننے کی فرصت بھی نکالیں۔ آئیں ہم بتاتے ہیں سسٹم کی سانپ سیڑھی پر قوانین کا ناگ پھن پھیلائے کہاں کہاں ملتا ہے۔

بینک کا قرض ایک دن بھی اتر نہ پائے تو پینالٹی، بجلی کا بل دس دن اوپر ہوجائے تو ہرجانہ۔ فیس جمع کرانے کی آخری تاریخ، بقاجات ادا کرنے کا آخری موقع۔

مرشد! اس سسٹم نے ہماری گردنیں ناپ رکھیں ہیں

مرشد! ہماری فائلیں روز کھلتی ہیں

سسٹم غریب کی جھگی جلانا جانتا ہے، قانون سے ہٹ کر ایک انچ بھی دیوار اٹھالیں اسے گرانا جانتا ہے۔ سسٹم  کی نظر ہر غیر قانونی پتھارے، غیررجسٹرڈ ٹھیلے، غیر مصدقہ خوانچہ فروش پر رہتی ہے۔ کوئی مولوی، کوئی فقیر، کوئی چور، کوئی پاکٹ مار یا کوئی فاحشہ سسٹم کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوسکتی۔

مرشد!  ہمیں سسٹم کی بڑی مار پڑی ہے

سسٹم سیاہ نصیب کی ہتھکڑی ہے

مرشد کہیں آپ کو بھی مغالطہ تو نہیں ہوگیا؟ کیا کہا ملنگ سسٹم کو نہیں مانتا۔ میری مجال کیا کہ تصحیح کرسکوں لیکن ریکارڈ کی درستگی بھی ضروری ہے۔ ایسا ہوا کرتا تھا، اب سوچ، سمجھ، خیال کی اڑان، اب حریت فکر اب علم و عرفان سب سسٹم میں قید ہیں۔

سسٹم جیلوں کا پیٹ آواز اٹھانے والے طلبا سے بھرسکتا ہے، رقاصہ کو فحش رقص پر جکڑ سکتا ہے، رمضان میں پان بیچنے والے کو دس برس قید کرسکتا ہے، زبان درازی پر زبان کھینچ سکتا ہے، قلم کی گستاخی پر کتاب ضبط کرسکتا ہے۔

مرشد! شریف لوگ تو سسٹم سے ڈرتے ہیں

باقی سیانے لوگ بھی سسٹم میں پھنستے ہیں

بڑی دلچسپ چیز ہے سسٹم۔ سرکار کی بنائی وہ بھول بھلیاں جس میں دروازہ ڈھونڈنے والا عام شخص اپنا سر پٹختا رہ جاتا ہے، سِرا نہیں ملتا۔ لیکن سسٹم کے موجد، اس میں ترمیم کرنے والے اور اس کا نفاذ کرنے والے سسٹم کی چُھپواں کھڑکیوں اور چور دروازوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔

  مرشد یہ سسٹم طاقت وروں کا کھیل ہے۔ کھیل میں کہنا نہیں چاہتی کیوں کہ سسٹم اجازت نہیں دیتا۔ ہاں اتنا کہنا کافی ہوگا کہ طاقت کے اس کھیل میں شراکت دار باری باری سسٹم میں گھسنے اور گُھس کر مارنے کا فن طاقت خوب جانتے ہیں۔

سسٹم جزا پر یقین نہیں رکھتا، سزا کو مشکوک بناتا ہے۔ سسٹم قانون کو مزید مشکل بنا کر اسے عام فہم ہونے سے بچاتا ہے۔ سسٹم سرکار کے ہر ادارے کا خود کار محافظ ہوتا ہے۔ یہ پیچیدگیوں کا کھیل رچا کر سرکاری بابوں کے کارنامے چھپا جاتا ہے۔

مرشد! اب آپ سے کیا چھپانا، یہ سسٹم کار ِسرکار میں مداخلت کے الزام پہ جب جہاں جیسے چاہے کسی کو بھی پکڑ سکتا ہے۔ لیکن پوری سرکار ہی کسی بالادست کی مداخلت کا شکار ہو تو سسٹم کی گھگی بندھ جاتی ہے۔

جسے جمہوریت کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جائے، آمریت کے طعنے ملیں یہ سسٹم اسے بھی ایکسٹیشن کا ہار پہناتا ہے۔ خود جس کا ماضی شفاف نہ ہو یہ سسٹم اسے انصاف کا ہیرو بنا سکتا ہے۔

مرشد! جس سسٹم نے ہمیں روند رکھا ہے، قانون توڑنے کی معمولی غلطیوں کو بھی جو معاف نہیں کرتا وہ پورے کا پورا آئین توڑنے والے کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 مرشد! ذرا سسٹم کی شان تو دیکھیں کہ یہ سیاسی مخالفین کے لیے موم کی ناک کی طرح موڑ دیا جاتا ہے۔ ضرورت ہو تو یہ سسٹم پانامہ مقدمے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نااہلی کی سزا دے سکتا ہے، جو کچھ نہ سوجھے تو حوالات بھیج سکتا ہے۔ سسٹم کا موڈ بنے تو سارا مقدمہ بھول بھال ملزم کو ملک سے باہر جانے بھی دے سکتا ہے۔

سسٹم انتقام لینے کے راستے دکھاتا ہے اور معاف کرنے کے بھی۔ یہی سسٹم سابق صدر آصف زرداری پر کوٹیکنا، ارسسز ٹریکٹرز، پولو گراونڈ، اے آر وائی گولڈ اور ایس جی ایس نام کے پانچ ریفرنس  بنوا سکتا ہے۔ کئی برسوں خوار کرسکتا ہے اور جب دل ہو تو بغیر کچھ ثابت کیے باعزت بری بھی کرسکتا ہے۔

جو سسٹم کا دل نہ بھرے تو یہ عمل پھر دہرا یا جاسکتا ہے جیسے کہ آصف زرداری کے خلاف آٹھ ارب روپے کی مشکوک ٹرانزیکشن کیس میں ہوا۔ یعنی ثابت کچھ ہوا نہ ہوا لیکن سسٹم نے طبی بنیادوں پر ضمانت دے دی۔

سسٹم وہی ہے جسے غریب کی جھگی کھٹکتی ہے مگر جو وزیراعظم عمران خان کے غیر قانونی مکان کو قانونی بنا سکتا ہے۔

سسٹم وہ ہے جو سیاسی مخالفین کی عمارتیں گراسکتا ہے، بااثر بلڈرز جیسے ملک ریاض یا پھر علیم خان اور طاقت ور ادارے جیسے کہ ڈی ایچ اے وغیرہ اس کے قابو نہیں آتے۔

مرشد کہیں میں اور کیا کیا گنواوں ! عوام پر ٹیکس کا ایک روپیہ تک نہ چھوڑنے والا سسٹم اربوں روپے کے ٹیکس چوروں کو وزیر مشیر بنا دیتا ہے۔

 مرشد ہمیں تو کرپٹ بھی سسٹم نے کر دیا

سسٹم وہی کہ کوئی بھی سسٹم نہیں چلے

نوٹ: اس تحریر کا انداز بیاں نوجوان شاعر افکار علوی کی مشہور آزاد نظم ’مرشد‘ سے مستعار لیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ