دارالحکومت بغداد سمیت جنوبی عراق میں اب بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور مظاہرین نے وزیراعظم عادل عبدالمہدی کے استعفے کے اعلان پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ’تمام بدعنوان افراد‘ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیراعظم نے جمعے کو اعلان کیا تھا کہ وہ اپنا استعفیٰ پارلیمنٹ کو پیش کر دیں گے لیکن اگلے روز بھی جنوبی عراق کے شہر ناصریہ میں مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
مظاہرین نے دریائے فرات پر بنے تین پلوں پر ٹائروں کو آگ لگا دی جبکہ سینکڑوں شورش زدہ شہر میں قائم کیمپ میں اکٹھے ہو گئے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سکیورٹی فورسز کی سخت کارروائی کے باجود مظاہروں کا سلسلہ نئے سرے سے شروع ہو گیا ہے۔ ناصریہ میں سکیورٹی کے کریک ڈاؤن میں دو دن کے دوران 40 مظاہرین ہلاک ہوئے۔
پرتشدد کارروائیوں کا آغاز مظاہرین کی جانب سے نجف میں ایرانی قونصل خانے کو نذر آتش کرنے کے بعد ہوا۔ مظاہرین نے الزام لگایا ہے کہ ایران عراق حمایت کے بل بوتے پر قائم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نجف میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے بعد سکیورٹی فورسز اور سول کپڑوں میں مسلح افراد نے مظاہرین کے خلاف آپریشن کیا جس کے نتیجے میں 20 مظاہرین مارے گئے تھے۔
پانچ مظاہرین سول کپڑوں میں ملبوس افراد کی فائرنگ میں ہلاک یوئے۔ مظاہرین مقدس مقام یا ایک سیاسی جماعت کے ہیڈکوارٹر کی طرف بڑھ رہے تھے۔
عراق کے دوسرے مقدس شہر کربلا میں سکیورٹی فورسز اور نوجوان مظاہرین کے درمیان رات بھر جھڑپیں جاری رہیں اور سکیورٹی فورسز نے آگ لگانے والے بموں کا استقبال کیا۔
دیوانیہ میں ہزاروں مظاہرین نے حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرہ کرنے والے ایک عراقی شہری نے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ ’ہم تحریک جاری رکھیں گے۔ وزیراعظم عبدالمہدی کا استعفیٰ صرف پہلا قدم ہے۔ تمام بدعنوان عناصر کو عہدوں سے ہٹا کر احتساب کا سامنا کرنا ہوگا۔‘
چند دہائیوں میں یہ عراق میں شروع ہونے والی سب سے بڑی تحریک ہے جس میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اب تک بغداد میں 420 سے زیادہ افراد ہلاک اور 15 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔