دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو اچھی تعلیم و تربیت دلانے کا خواب لے کر لاہور لانے والے ملک رمضان کو تینوں بچے سکول سے نکلوانے پڑ گئے کیونکہ انہیں کرونا وائرس کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاؤن کے دوران ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔
قصور کے نواحی گاؤں روسہ ٹبہ چک نمبر1 کے رہائشی ملک رمضان لاہور کی ایک فیکٹری میں بطور فورمین ملازمت کرتے تھے۔
وہ پانچ سال پہلے اپنے تین بچوں دس سالہ عمران، نو سالہ فرحان اور سات سالہ بچی ماہین کو گاؤں سے لاہور لائے جہاں انہیں پہلے محلہ کے پرائیویٹ پھر سرکاری سکول میں داخل کرا دیا تاکہ وہ تعلیم حاصل کر کے باشعور شہری بن سکیں۔
ملک رمضان نے اپنی دکھ بھری داستان سناتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی 40 ہزار تنخواہ تھی اور شام کو وہ ٹھیکہ پر رکشہ بھی چلاتے تھے جس سے گھر کا کرایہ، کھانے پینے اور بچوں کے اخراجات کسی حد تک چلتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اچانک کرونا لاک ڈاؤن لگ گیا اور انہیں معاشی مشکلات کی بنیاد پر انتظامیہ نے دیگر ملازمین کی طرح نوکری سے نکال دیا۔ سکول بھی بند ہوگئے تو بچے بھی گھر رہنے لگے اب ان کا واحد روزگار کا سہارا رکشہ تھا وہ بھی لاک ڈاؤن میں کم ہی استعمال ہوتا تھا۔
’بہر حال بہ مشکل دو وقت کی روٹی اور گھر کا کرایہ دیا جاتا جو تھوڑی بہت جمع پونجی تھی کچھ سامان بیچ کر مشکل وقت نکالا، شرم کے مارے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا جاتا تھا اور نہ مدد مانگی گئی۔‘
ملک رمضان کے مطابق ایسے حالات میں بس گزارہ ہی مشکل سے ہوتا رہا۔ گاؤں میں جو تین مرلہ کا گھر تھا اس میں بوڑھی ماں بھائی کے ساتھ رہتی ہیں۔ ’میں ان سے بھی کوئی مدد نہیں لے سکتا تھا، اس کے بعد کرونا لاک ڈاؤن تو ختم ہوگیا لیکن نوکری بحال نہیں ہوئی۔
’لہذا رکشہ چلا کر گھر چلانا مشکل تھا۔ سردیوں میں دونوں بیٹوں نے انڈے پیچ کر گزارہ کیا اور اب انہیں ایک ہوٹل پر لگا دیا ہے تاکہ خرچ پورا ہوسکے۔ سکول تو کھل گئے لیکن ہم اپنے بچوں کو دوبارہ سکول بھیجنے کے قابل نہیں رہے۔ بچی بھی ماں کے ساتھ گھر کا کام کاج کرتی ہے وہ بھی سکول نہیں جا سکتی۔‘
ملک رمضان کا کہنا ہے کہ ان حالات میں ’تعلیم حاصل کریں یا بھوک مٹانے کے لیے محنت مزدوری کریں۔‘
کتنے بچوں سے سکول چھن گیا؟
یہ مسائل صرف ملک رمضان کے ہی نہیں بلکہ سرکاری اعداوشمار کے مطابق ملک بھر کی طرح پنجاب میں بھی تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
محکمہ سکول ایجوکیشن پنجاب کے ریکارڈ کے مطابق تعلیم سے محروم صوبہ پنجاب کے بچوں کی تعداد گذشتہ کئی سالوں سے لاکھوں میں چلی آ رہی تھی مگر صرف کرونا کے بعد چھ لاکھ بچوں کے سکول چھوڑ کر محنت مزدوری پر جانے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
سکول ایجوکیشن پنجاب کے پراجیکٹ ڈائریکٹر مانیٹرنگ قیصر رشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب بھر میں گذشتہ کئی سال سے تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد لاکھوں میں تھی اور اب کرونا کے بعد سکول کھلے ہیں تو اس میں چھ لاکھ کے قریب بچے سکول چھوڑ گئے۔
’حتمی طور پر تعداد نہیں بتائی جاسکتی کیونکہ ہم نے بچوں کے ب فارم جمع کرانے کی شرط پر عمل درآمد کرانا شروع کر دیا ہے جس کے تحت یہ تعداد حتمی طور پر جانچی جائے گی۔ اس سے تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے اور کم بھی لہذا ہم نے اپنے سرویز کے ذریعے اس تعداد کے مطابق ہدف مقرر کیے ہیں۔‘
انہوں نے کہاکہ عام طور پر ’ان پڑھ اور محنت کش طبقہ بچوں کی تعلیم کی بجائے ان کی کمائی کو ترجیح دیتا ہے۔ بہت سے لوگ تو مجبوری نہ ہونے پر بھی بچوں کو محنت مشقت پر لگا دیتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق بھٹہ مزدور، خانہ بدوش اور بھیک مانگنے والے اپنے بچوں کو پڑھائی کی بجائے اپنے ساتھ ہی کام پر لگا لیتے ہیں۔ ان کی ترجیحات بچوں کو تعلیم دلوانا نہیں بلکہ انہیں پیسے کمانے کا ذریعہ بنانا ہوتی ہے۔
’دوسری بات یہ ہے کہ قانونی طور پر کسی کو زبردستی بچوں کو سکول داخل کرانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔‘
حکومتی اقدامات
حکومت پنجاب نے تعلیم سے محروم بچوں کو سکولوں میں داخل کرانے کی ’سکول داخلہ مہم‘ کا بھی آغاز کر دیا ہے جس کے مطابق رواں تعلیمی سال میں دس لاکھ تعلیم سے محروم بچوں کو سکولوں میں داخل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
وزارت تعلیم پنجاب کے ترجمان عمر خیام کے مطابق صوبہ بھر میں موثر مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کے تحت تعلیم سے محروم بچوں کے والدین کو قائل کیا جائے گا کہ وہ اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کرائیں۔
ان کے مطابق اس ضمن میں سرکاری سکول کتابیں اور کاپیاں ویسے ہی مفت فراہم کرتے ہیں دیگر بھی ایسے اخراجات نہیں جو والدین پر بوجھ بنیں۔ دوسری جانب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کیموافقت سے چائلڈ لیبر سے متعلق قوانین پر بھی سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔
قیصر رشید نے بتایا کہ پنجاب میں سرکاری سکولوں کی تعداد کم وبیش 50 ہزار ہے جن میں اساتذہ کی تعداد بھی ضرورت کے مطابق پوری کی جا رہی ہے اور بچوں کو سکولوں میں لانے کا ٹارگٹ جو دس لاکھ مقرر کیا گیا ہے، اسے مکمل کرنے کے لیے سکول کونسلز کو متحرک کیا جا رہا ہے۔
’تعلیم چیمپئنز کو نامزد کر کے ذمہ داری دی جا رہی ہے کہ بچوں کے والدین کے ساتھ کارنر میٹنگز کا اہتمام کیا جائے، اسی طرح پہلی بار یہ ہدف سکولوں کے اساتذہ کی بجائے سکول ہیڈ ماسٹرز، ضلعی ایجوکیشن آفیسرز کوسونپا گیا ہے۔‘
واضح رہے کہ سکول داخلہ مہم پہلی بار شروع نہیں کی گئی ہے بلکہ اس قبل بھی گذشتہ حکومتوں نے ’پڑھا لکھا پنجاب‘، ’پڑھے گا پنجاب تو بڑھے گا پنجاب‘، ’نئی روشنی‘، ’مسجد مکتب سکول‘ کے ناموں سے بھی مہم چلائی جا چکی ہیں جن کا مقصد یہی تھا کہ بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کیا جائے۔
اسی غرض سے چائلڈ لیبر کو روکنے کا قانون بھی بنا اور اس پر عمل درآمد کی کوشش بھی کی گئی مگر ابھی تک کوئی بھی مہم مکمل طور پر کامیاب نہ ہوسکی۔ مختلف سروے میں یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ غربت کا خاتمہ کیے بغیر غریب والدین کو بچوں کی تعلیم پر رضامند کرنا مشکل ہے۔