کلبوشن کی گرفتاری پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بہت بڑی کامیابی تھی اس گرفتاری نے واضح کر دیا کہ بھارت پاکستان میں ایک بہت بڑی دہشت گردی کی مہم کی سرپرستی کر رہا ہے اور اس کے لیے برادر ہمسایہ ملک کی سرزمین بھی استعمال کی جا رہی ہے۔
ہم اس کامیابی کو ایک منظم سفارتی طریقے سے اہم ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے سامنے لا سکتے تھے اور یہ ثابت کرسکتے تھے کہ ہم بھارتی دہشت گردی کا شکار ہیں۔
جو اعترافات کلبھوشن نے کیے اور جو دستاویزات اس سے برآمد ہوئیں، وہ ہمارا مقدمہ ثابت کرنے میں بہت معاونت کر سکتی تھیں لیکن ہم نے یہ نادر موقع ایک غیر دانشمندانہ اقدام کے ذریعے ضائع کر دیا۔
ہماری بات کو توجہ سے سننے کی بجائے اہم دارالحکومتوں میں اسے ایک پروپیگنڈا مہم کے طور پر دیکھا گیا، بھارت نے ای سی جے میں جاکر اس کو دوسرا رنگ دیا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ جیسے ایک معصوم بھارتی شہری کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور اسے کونسلر رسائی نہیں دی گئی۔
اس مسئلے کو آئی ایس پی آر کے ذریعے آگے بڑھانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ساری دنیا میں ممالک اپنے دشمن اور دوست ممالک میں جاسوس بھیجتے ہیں اور اکثر جاسوس پکڑے بھی جاتے ہیں لیکن کہیں بھی ہمیں گرفتار جاسوسوں کے ٹی وی انٹرویوز نظر نہیں آتے ہیں اور عموماً ایسے بیانات کی بین الاقوامی طور پر کوئی اہمیت بھی نہیں ہوتی کیونکہ یہ عموماً سمجھا جاتا ہے کہ ایسے بیانات سخت جسمانی یا ذہنی دباؤ کے نتیجے میں دیے جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں اس قسم کے مسائل جن میں سفارت کاری اور معلومات کا پھیلاؤ درکار ہو اس میں سویلین ادارے استعمال کیے جاتے ہیں اور عموماً فوجی ادارے اس طرح کی معلومات یا پروپیگنڈا مہم سے دور رہتے ہیں۔
موجودہ دور میں اس طرح کے کام کے لیے جہاں غیرملکی سامعین کو پیغام دینا ہو تو وزارت خارجہ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کلبھوشن کے معاملے میں بھی پاکستان کو پہلے مرحلے میں خاموش سفارت کاری سے کام لینا چاہیے تھا۔ تمام اہم دارالحکومتوں میں خصوصی اہلکاروں یا سفیروں کے ذریعے مقامی وزارت خارجہ کے اہلکاروں کو تمام ثبوتوں کے ساتھ بریف کرنا چاہیے تھا اور پاکستان کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہیے تھا۔
یہی کوشش بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کرنی چاہیے تھی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کے ساتھ خصوصی رابطے کرکے انہیں اس معاملے کی اہمیت اور نزاکت سے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ یورپی کونسل کو بھی علیحدہ سے اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی۔ ان تمام کاموں سے بین الاقوامی طور پر ہمارے بیانیے کو قوت اور اعتماد ملنا تھا۔
اس کے بر خلاف ابتدا میں ایک مہم پاکستان میں شروع کی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہدف سامعین بین الاقوامی برادری نہیں بلکہ صرف پاکستانی قوم تھی۔ اسی وجہ سے ہم مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے۔
دفاعی اداروں کے پاس ذرائع لامحدود ہیں مگر سفارت کاری ان کی تربیت میں شامل نہیں ہے اور انہیں ہر کام خود کرنے کی عادت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر شروع سے ہی کلبھوشن کا کیس وزارت خارجہ میں ہینڈل کیا جا رہا ہوتا تو مناسب نتائج حاصل کیے جاسکتے تھے۔