27 سالہ ساجد اسلام آباد میں دال پانی و رہائش کا خرچہ برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے یہاں کی سبزی منڈی میں ایک سال مزدوری کے بعد واپس اپنے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان مقروض ہو کر چلے گئے تھے جہاں ان کو روز گار کے انتہائی کم مواقع میسر تھے۔
لیکن 2019 میں ہتھ ریڑی لگا کر سبزی بیچنے کا کام دوبارہ شروع کرنے کے لیے واپس دارالحکومت کے کنارے آئی ٹین میں واقع سبزی منڈی پہنچ گئے اور دو مہینے سے زیادہ عرصہ گزارنے کے بعد اس بار وہ مہنگائی بڑھنے کے باوجود قدرے مطمئن ہیں۔
لیکن ان کا اطمینان منافع یا آمدنی میں اضافے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجہ اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں وہ پناہ گاہیں ہیں جو حکومت کی وساطت سے قائم کی گئی ہیں۔
سبزی منڈی سے متصل سڑک کنارے واقع پناہ گاہ کے ایک بڑے ہال میں ایک چارپائی کے بستر پر آرام سے بیٹھے ساجد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مزدور کے لیے اجرت کی کوئی ضمانت نہیں کہ روزانہ ملتی بھی ہے یا نہیں، لیکن 17-2016 میں ان کو کھانے اور رہائش پر تین سو سے چار سو روپے روزانہ خرچ کرنا پڑتے تھے جس سے کمائی گھر بھیجنا تو دور کی بات، کبھی کبھی مقروض بھی ہونا پڑتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ’مجھے گھر بے روزگاری کی حالت میں لوٹنا پڑا جہاں سونے کے لیے چھت اور بستر تو موجود تھا۔‘
ان کے مطابق وہ غربت و بے روز گاری سے تنگ آ چکے تھے اور جب ان کو پناہ گاہوں اور اس میں ملنے والی سہولیات کا پتہ چلا تو انھوں نے جلد واپسی کا فیصلہ کیا اور اب اپنے فیصلے پر خوش ہیں کیونکہ وہ آسانی سے نہ صرف خرچے سے بچ سکتے ہیں بلکہ اپنی کمائی میں سے ماہانہ چند ہزار زیادہ بچا کر گھر بھیج سکتے ہیں۔
اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی میں کام کرنے والے ہزاروں مزدوروں میں سے اکثریت ان پناہ گاہوں سے مستفید ہو رہی ہے۔ اگر کسی نے اپنی رہائش رکھی ہوئی ہے تو کم از کم پناہ گاہ میں ان کو بنیادی صحت کی سہولت اور کھانا مل جاتا ہے۔
ڈپٹی کمشنر شفقات محمود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پناہ گاہوں کی سہولیات حاصل کرنے والوں میں 90 فیصد مزدور ہی ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے علاقوں آئی 11، جی 4/9 اور ترلائی میں تیں پناہ گاہیں قائم کی گئی ہیں جن میں روزانہ 1500 لاچار افراد کو کھانا ملتا ہے اور 350 افراد وہیں پر رات گزارتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکام کو ان پناہ گاہوں کی نگرانی کے لیے اپنے معمول کے فرائض کے ساتھ ساتھ اضافی وقت صرف کرنا ہوتا ہے۔ ’لیکن ہم یہ سارا کچھ ایک مقصد کے لیے کرتے ہیں اور ہمیں ان (پناہ گاہوں) کی کامیابی پر فخر ہے۔‘
ملک کے تمام شہری علاقوں میں پھیلے ہوئے لاچار اور مزدور طبقے کے لیے صحت کی بنیادی سہولت کے ساتھ یہ پناہ گاہیں ایک نعمت سے کم نہیں۔ پناہ گاہوں میں ناشتے اور رات کے کھانے کے علاوہ چارپائیاں، بستر، خبروں اور تفریح کے لیے ٹی وی، پنکھے، نہانے اور پینے کے لیے صاف پانی، غسل خانے اور صاف ماحول مہیا کیا جا رہا ہے۔ سکیورٹی کا بھی انتظام موجود ہے، جبکہ تمام سہولیات کی نگرانی کے لیے ضلعی انتظامیہ کی طرف سے افسران بھی صبح و شام بہ نفس نفیس موجود ہوتے ہیں۔
اسلام آباد میں پناہ گاہوں کے منتظم و ترجمان روشدل خان ہوتی نے بتایا کہ پناہ گاہوں کے اخراجات مختلف نجی شعبے برداشت کر رہے ہیں اور ان میں مخیر حضرات بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ان کے مطابق پناہ گاہیں صرف اسلام آباد تک محدود نہیں ہیں، وزیر اعظم عمران خان نے نومبر میں اس سلسلے کا لاہور میں افتتاح کیا اور اب ملک بھر میں ان کی تعداد لگ بھگ 80 ہو گئی ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اگرچہ ملک کے مختلف شہروں میں قائم ان پناہ گاہوں کا مقصد بے گھر افراد اور لاچاروں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے لیکن ان غریب لوگوں میں سے زیادہ تر کا تعلق مزدور طبقے سے ہی ہے۔ پاکستان ورکرز فیڈریشن کے نائب صدر ٹکا خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان کے بے گھر افراد میں مزدور روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے طبقے کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ ’نہ تو ان کو سہولیات دی جاتی ہیں اور نہ ہی وہ سوشل سکیورٹی جو ایک صنعتی مزدور کو میسر ہوتی ہے، جو کچھ وہ کماتا ہے وہ صحت اور کھانے پر خرچ ہوجاتا ہے۔‘
ان کے بقول 80 سے 90 فیصد مزدور پاکستان میں وہ ہیں جو غیر رسمی شعبے میں کام کرتے ہیں، جن کے لیے کوئی قانون یا تحفظ موجود نہیں۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں پاکستان میں سات کروڑ سے زائد افرادی قوت موجود تھی۔ اقتصادی جائزہ ( 18-2017) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 3۔24 فیصد اب بھی غربت کی لکیر سے نیچے ذندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں مزدوری بھی مشکل سے ملتی ہے اور بعض علاقوں میں اجرت بھی کم ہے، اور پناہ گاہوں کی سہولت سے عام مزدور کے روزگار کے لیے سفر و قیام میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔
خیبر پختونخوا کے علاقے مردان سے تعلق رکھنے والے 46 سالہ شیر علی کا کہنا ہے کہ وہ 25 سال سے اسلام آباد میں مزدوری کررہے ہیں لیکن مہنگائی کے دور میں اپنے چھ بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں پوری کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ شیر علی نے پشاور موڑ کے بازار میں واقع ایک ہوٹل مٰیں چائے کی چسکی لیتے ہوئے بتایا کہ ’میرا چھوٹا بیٹا سائیکل کی فرمائش کر رہا تھا جس کا پورا کرنا میرے وسائل سے باہر تھا، لیکن اب میں جلد خرید سکوں گا کیونکہ پناہ گاہ کی وجہ سے مجھے چھ سے سات ہزار کی ماہانہ بچت ہو رہی ہے۔‘
جی 9/4 کے بازار کے ساتھ سڑک پر تقریباً ایک کلو میٹر تک پھیلی مزدوروں کی طویل قطار دیکھی جاسکتی ہے جو کسی انہونی گاہک کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگوں کو مہینے میں صرف 15 یا 16 دن ہی مزدوری ملتی ہے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک رنگساز، سہیل جو اسلام آباد میں مزدوری کرتے ہیں، نے بتایا کہ مزدوری ملنا قسمت کی بات ہوتی ہے اور مشکل تب پڑتی ہے جب بندہ بیمار ہوتا ہے، کیونکہ ایک مزدور کے لیے بخار کا علاج بھی مہنگا پڑتا ہے۔ مزدور پناہ گاہوں میں صحت کی بنیادی سہولیات سے زیادہ خوش دکھائی دیتے ہیں۔
مالی اور سماجی فائدے کے علاوہ تحفظ کے لحاظ سے بھی یہ پناہ گاہیں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ جی 9/4 میں ایک مزدور نے بتایا کہ چند سال پہلے رات کو ایک مزدور یہاں مارا گیا تھا جس کے قاتل کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا اور کئی مقامات پر تو کسی سڑک کے کنارے لیٹے ہوئے مزدور سے پیسے بھی چوری ہوجاتے تھے، لیکن اب ’ہمیں تحفظ محسوس ہوتا ہے۔‘
دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ صرف پناہ گاہیں قائم کرنے سے غریب پاکستانیوں کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ سماجی و انسانی حقوق کی سرگرم کارکن فرزانہ باری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’سوشل سکیورٹی پالیسی کی عدم موجودگی میں لاچار و بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں قائم کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، اگر چہ اس سے دسیوں ہزار لوگوں کو وقتی فائدہ ہوگا لیکن پاکستان میں مزدور اور غریب طبقے کی تعداد کروڑوں میں ہے۔‘
ماہرین کے مطابق ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ یا کینیڈا میں بھی پناہ گاہیں قائم کی گئی ہیں کیونکہ بے گھر افراد کا مسئلہ ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں ہے لیکن وہاں اس کے ساتھ سوشل سکیورٹی کا نظام بھی موجود ہے۔
دوسری جانب ٹکا خان کا کہنا تھا کہ پناہ گاہوں کا قیام بہر حال ایک مثبت پیش رفت ہے جس سے زیادہ تر مزدور طبقہ ہی مستفید ہو رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ سوشل سکیورٹی اور ان کو اپنے گھروں کے مالک بنانے کے لیے اقدامات پر بات ہوسکتی ہے اور اس ضمن میں بغیر سود کے قرضوں کی فراہمی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
بینک دولت پاکستان کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 20 کروڑ 80 لاکھ آبادی کے حامل ملک پاکستان میں ایک کروڑ گھروں کی کمی ہے اور گھروں کی مانگ میں سالانہ سات لاکھ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ سالانہ مانگ کے نصف سے بھی کم گھر تعمیر ہو رہے ہیں۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں پانچ سالوں میں 50 لاکھ گھر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اپریل میں انہوں نے اس کے ابتدائی مرحلے کا اسلام آباد میں افتتاح بھی کیا ہے، لیکن ماہرین یہ سارے اقدامات غربا کے مسائل حل کرنے کے لیے ناکافی سمجھتے ہیں۔
واضح رہے کہ یورپی یونین کے ممالک میں صرف فن لینڈ ہی بے گھر افراد کا مسئلہ حل کر سکا ہے۔ فن لینڈ میں بے گھر افراد کو ہزاروں فلیٹ مہیا کرنے والی 'وائی فاونڈیشن' کے چیف ایگزیکٹیو جوہا کاکنن نے کچھ عرصہ پہلے برطانیہ کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکمت عملی گھروں کی قلت کے متبادل انتظام کی بجائے بے گھر افراد کے لیے فوری گھروں کے بندوبست پر مرکوز تھی۔ بنیادی طور پر وہاں کی حکومت نے مستقل رہائش اور گھروں کے معاملے میں ضرورت کی بنیاد پر مدد فراہم کی ہے۔