میں آج بھی اس منظر کو نہیں بھولی ہوں جب سن نوے کے اوائل میں ایک دن پو پٹھنے سے پہلے فوجیوں نے ہمارے محلے کو محاصرے میں لیا تھا اور ہمارے مکان کے چاروں طرف فوجی اپنی بندوقیں تانیں کھڑے تھے۔ کوہ سلیمان کی پہاڑوں سے چینٹوں کی مانند فوجی کمک نیچے آ رہی تھی۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
مسجد سے اذان کی بجائے اعلان ہو رہا تھا کہ سارے مرد، جوان اور بچے گھروں سے باہر آ کر مسجد کے صحن میں جمع ہو جائیں۔ عورتیں اپنے گھر کے باہر رہیں۔ میرے والد، بہنوئی اور بھتیجا اپنے ہاتھ سر پر اٹھا کر جب دروازے سے باہر نکل گئے تو فوجی جوانوں نے لوگوں کی لمبی قطار کا حصہ بنا کر انہیں مسجد تک پہنچا دیا جہاں انہیں شناختی پریڈ سے گزرنا پڑا جو تقریباً 18 گھنٹے تک بغیر پانی یا خوراک کے جاری رہی۔
یہ میرے محلے کا پہلا کریک ڈاؤن تھا۔ اس دوران میرے گھر کے تین افراد کو شناختی پریڈ کے بعد حراستی مرکز پر لے جایا گیا اور ہم اپنے گھر میں اکیلے اور فوجی پہرے میں کئی روز تک چیختے چلاتے رہے۔ اس واقعے کا خوف میرے ذہن پر آج بھی اتنا گہرا ہے کہ میں بعض اوقات خود کو رات کو چلاتے ہوئے پاتی ہوں یا پسینے میں شرابور ہو جاتی ہوں۔
سن نوئے کے بعد اتنے کریک ڈاؤن ہوئے کہ ان کی گنتی کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ ہر کریک ڈاؤن میں کشمیریوں کو گرفتاریوں، ذلت، پٹائی یا اذیت سے گزرنا پڑتا تھا، عورتوں کو گھر کے باہر گھنٹوں اس انتظار میں تڑپتے رہنا پڑتا تھا کہ کیا ان کے بچے، شوہر بیٹے یا والد زندہ لوٹیں گے یا نہیں۔
میرے محلے کے ایک کریک ڈاؤن میں چار نوجوانوں کو گرفتار کر کے تفتیشی مرکز میں لے جایا گیا۔ دوسرے روز فجر کے نمازیوں کو ان کی مسخ شدہ لاشیں مسجد کے صحن میں ملیں۔
وہ سانحہ میرے دل میں ایک بڑے سوراخ کے مانند ہے۔ میں نے ان کی ماؤں کی آنکھوں میں آنسو خشک ہوتے دیکھے ہیں اور وہ آج بھی پتھر کی طرح بےحس اور بےجان ہیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب میں نے صحافت میں اپنے کیرئیر کا آغاز ہی کیا تھا کہ پرُتشدد حالات کی سنگینیوں کو بیان کرنے کی مجھ میں ہمت ہی نہ تھی۔
تین دہائیوں کی مسلح تحریک کے دوران چند برس پہلے تک یہ کریک ڈاؤن جاری رہے اور سابق دو مقامی حکومتوں کے دور میں یہ سلسلہ کچھ کم ہونے لگا تھا۔ مسافروں کو بسوں سے اتار کر تلاشی کے مراحل سے گزرنے کی تکلیف ذرا سی کم ہوگئی۔ میدانوں میں ہزاروں مردوں کو جمع کر کے شناختی پریڈ کی سختیاں نرم پڑگئیں، تعلیمی اداروں میں گھس کر طلبا کے بستوں کی تلاشی بند ہوگئی یا بیشتر دفتروں میں جانے سے پہلے تمام کپڑے اتارنے کا عمل ختم ہوگیا تھا حالانکہ فوجی موجودگی، پولیس کی تلاشی، ہر مقام پر بنکر یا ہر دفتر کے باہر سکیورٹی فورسز کی گھورتی نظریں بدستور قائم رہیں۔
پھر 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیاگیا۔ کسے معلوم تھا کہ چند روز پہلے برزلہ میں دو پولیس والوں پر کوئی ’بندوق بردار‘ روایتی پوشاک پھرن میں بندوق چھپا کر وار کرے گا جس کے بعد سن نوے کا وہ کریک ڈاؤن دوبارہ شروع کیا جائے گا کہ جس نے بیشتر آبادی پر خوف کا ایسا گہرا اثر چھوڑا ہے کہ آج بھی اس دور میں پیدا ہوئے ہمارے بچے راتوں کو خوف اور ڈر سے چلاتے رہتے ہیں۔
آپ نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر لوگوں کی ان لمبی قطاروں کو دیکھا ہوگا جب فوجی لوگوں کے کپڑے اتار کر ان کی تلاشی لیتے ہیں، شناختی کارڈ دیکھتے ہیں اور شدید سردی میں ’کدھر سے آئے اور کدھر جانا ہے‘ جیسےسوالوں کے جوابات کے بعد ہی وہاں سے جانے کی اجازت مل پاتی ہے۔
چند روز سے لال چوک اور دوسرے علاقوں میں بیچ سڑک پر بسوں، کاروں اور دوسری مسافر گاڑیوں کو روک کر لوگوں کو قطار میں کھڑا کیا جاتا ہے، پھرن سمیت دوسرے کپڑے اتارنے کے لیے کہا جاتا ہے اور تلاشی لی جاتی ہے۔
ہندوتوا کے چند لیڈروں نے کشمیریوں کے روایتی پھرن پہننے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کشمیری یہ گرم لباس پھرن شدید سردی میں پہنتے ہیں جہاں بجلی کی کمی کے باعث اس کے اندر چھوٹی بخاری جیسی کانگڑی رکھی جاتی ہے۔
جموں وکشمیر میں پن بجلی منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی شمالی بھارت کو فراہم کی جاتی ہے جبکہ مقامی لوگوں کو اس کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر کشمیری پھرن نہیں پہننے گے، تو کانگڑی کا استعمال نہیں کر پائیں گے اور شدید سردی سے انسانی جانوں کے ضیاع کا احتمال ہے۔
پھرن پہننا فیشن نہیں ضرورت ہے اور پھر صدیوں سے کشمیریوں کی پوشاک رہی ہے اب اگر بی جے پی کے چند اہلکار سمجھتے ہیں کہ کشمیریوں کے پھرن اتارنے سے کشمیر کے موجودہ حالات پر قابو پایا جاسکتا ہے اور انہیں اپنے سیاسی حقوق کے مطالبات سے دستبردار کیا جاسکتا ہے تو اس سے زیادہ حماقت کیا ہوسکتی ہے۔
بقول شاعر
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پانچ اگست 2019 کے بی جے پی کے فیصلے کا یہ جواز بتایا گیا تھا کہ جموں و کشمیر میں امن قائم ہوگا، ترقی کی رفتار تیز ہوگی، دودھ کی نہریں بہیں گی اور سازگار ماحول پیدا کر کے اسے حقیقی طور پر جنت بنایا جائے گا۔
اب تک یہ خواب سراب ہی ثابت ہوا ہے جس نے کشمیر کے حالات کو مزید ابتر اور پرتشدد بنایا ہے۔ اچھا رہتا اگر 5 اگست کا فیصلہ کرنے والے اپنی ناکامی تسلیم کر کے اخلاقی طور پر کرسی سے اترنے کا فیصلہ کرتے اور اس قوم سے معافی مانگ کر اپنے گناہوں کا کفارہ کرتے۔
اس کے برعکس ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں کہ پوری کشمیری قوم ذہنی اور جسمانی طور اتنی مفلوج ہو کہ وہ اُف کرنے کی سکت سے بھی محروم ہوجائے۔ زمین، گھر، پرچم، شناخت، زبان اور آئین سے پہلے ہی محروم کر دیئے گئے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کے حالات میں کتنی مماثلت ہے۔
دونوں قوموں کی تاریخ ایک ہی وقت شروع ہوگئی، دونوں پرتشدد حالات سے جوجھ رہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ دونوں ایک ہی وقت ایک ہی پالیسی کے تحت عالمی نقشے پر غائب کئے جا رہے ہیں۔
ان حالات کو سمجھنے اور ایک حکمت عملی ترتیب دینے پر سنجیدگی سے غورکرنا ہوگا اور دونوں قوموں کو اپنے وجود، حقوق اور