پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر سیز فائر سے متعلق اتفاق کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی ممکنہ پاکستان آمد کی خبروں کو بعض حلقے جنوبی ایشیائی ہمسایوں کے تعلقات میں تناؤ کی کمی کی نوید کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلشنز کے سربراہ امجد یوسف نے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی حالیہ پیش رفت کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’میں امید رکھتا ہوں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا عمل دوبارہ شروع ہو جائے گا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر روابط ضرور قائم ہیں جن کے باعث بات یہاں تک پہنچی ہے۔
’یہ سب کچھ ایک دن میں تو ہونا ممکن نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے برسوں کی محنت اور طویل مذاکرات کا عمل دخل ہوتا ہے۔‘
بھارتی اخبار دی پرنٹ نے جمعرات کو اپنے ذرائع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ بھارت 2016 سے تعطل کے شکار سارک سربراہی اجلاس کے اسلام آباد میں انعقاد پر اعتراض واپس لے سکتا ہے اور وزیر اعظم نریندرا مودی بھی اس اجلاس میں شرکت کے لیے سرحد پار کا سفر کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس 2016 میں اڑی حملوں کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ کے باعث التوا کا شکار ہوتی رہی ہے۔
جمعرات ہی کو دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے درمیان سرحد پر جنگ بندی سے متعلق 2003 کے معاہدے پر سختی سے عمل درآمد پر اتفاق ہوا۔
پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے رواں ماہ کے آغاز میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ امن کے لیے ہر طرف ہاتھ بڑھائے جائیں۔‘
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مہذب انداز میں گفت و شنید کی شروعات ایک اچھا اقدام قرار دیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگلا قدم اسلام آباد اور نئی دلی میں دونوں ملکوں کے ہائی کمشنرز کی بحالی کا ہو گا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سارک کانفرنس کا اسلام آباد میں اجلاس اگر ورچول بھی ہو، تو بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بہتری کے سلسلے میں ایک بڑی چھلانگ ثابت ہو گا۔
بہتری کی وجوہات
ویسے تو پاکستان اور بھارت کے تعلقات تقسیم ہندوستان سے ہی نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں، تاہم اگست 2019 میں وزیر اعظم نریندرا مودی حکومت کی جانب سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی نے دونوں ملکوں کے درمیان خلیج کو مزید بڑھا دیا۔
اسلام آباد نے نئی دلی سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آئنی حیثیت کی واپسی کی شرط لگا رکھی تھی۔
ایسے میں دونوں ممالک کی طرف سے مثبت بیانات نے بعض حلقوں کو حیران بھی کیا، تاہم عالمی منظر نامے پر نظر رکھنے والے اس پیش رفت کو بے وجہ قرار نہیں دیتے۔
امجد یوسف کے خیال میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا بہتری کی طرف سفر امریکہ میں صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلی کا مرہون منت ہے۔
’میرے خیال میں جو بائیڈن حکومت نے نئی دلی پر اس سلسلے میں کافی دباؤ ڈالا ہے، جس سے وہ امن کے راستے پر چلنے کے لیے مجبور ہوئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ڈی جی ایم اوز کے فائر بندی سے متعلق معاہدے پر واشنگٹن کا فوری ردعمل ثابت کرتا ہے کہ وہاں اس پیش رفت کی توقع کی جا رہی تھی اور اس کے لیے کچھ ہو رہا تھا۔
ان کے خیال میں بھارت مذاکرات شروع کرنے کے لیے جموں و کشمیر کی آئنی حیثیت بھی جزوی طور پر واپس کر دے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے امجد یوسف نے کہا: ’بالکل پہلے جیسے صورت حال تو نہیں ہوگی لیکن میرے خیال میں وہ اپنے آئین میں مزید ایک آرٹیکل ڈالیں گے، جس میں صرف جموں و کشمیر کی آئنی حیثیت میں تبدیلی آئے گی جو نہ بالکل پہلے جیسی ہوگی اور نہ جیسی اب ہے ویسی ہوگی۔‘
انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) سے منسلک علی محمد بیگ کا کہنا تھا کہ بھارت کے بعض داخلی مسائل اور چین کی طرف سے خطرات نے اسے پاکستان کی طرف امن کا ہاتھ بڑھانے کے لیے مجبور کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بھارت میں اندرونی فسادات کافی ہیں اور حالیہ کسان تحریک نے بھی وہاں تشویش میں اضافہ کیا ہوا ہے جبکہ شمالی سرحد کے خطرات بھی مستقل موجود ہیں۔‘
اس سلسلے میں سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ ’نریندرا مودی کے گاڈ فادر ڈونلڈ ٹرمپ کا جانا، اندرونی دباؤ اور چین کی طرف سے خطرات، یہ وہ تمام وجوہات ہیں جن کے باعث بھارت کے رویے میں تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔‘
کیا تبدیلی مستقل ہو گی؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان اس سے قبل بھی کئی مرتبہ مذاکرات اور تعلقات کی بحالی کے لیے کوششیں ہوتی رہی ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اور سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ہمسایہ ملکوں کے دوروں کو خصوصی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔
ان تمام کوششوں کے درمیان ہمیشہ ایسے واقعات بھی ہوتے رہے ہیں جن سے دونوں ہمسائے کئی مرتبہ ایک دوسرے سے دور ہو جاتے تھے اور اس سلسلے میں اڑی اور بالاکوٹ حملے اور بھارتی جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی وغیرہ اہم واقعات ثابت ہوئے۔
بعض تجزیہ کار اور ماہرین پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری لانے کی حالیہ کوششوں کو بھی عارضی قرار دیتے ہیں۔
علی محمد بیگ کا کہنا تھا کہ دونوں ہمسایہ ممالک مختلف وجوہات کی بنا پر مذاکرات کے لیے راضی تو ہو جائیں گے لیکن یہ معاملات زیادہ عرصہ نہیں چلیں گے اور یہ سب کچھ مستقل نہیں ہو گا۔
ان کے خیال میں ریاستیں پہلے ایسکیلیشن کی پالیسی پر عمل پیرا رہتی ہیں اور پھر اس ایسکیلیشن کو کم کرنے کے لیے ڈی ایسکیلیشن کا سہارا لیتی ہیں اور یہی سب کچھ یہ دونوں ہمسائے بھی کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز الطاف حسین وانی نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات میں کشمیریوں کی موجودگی ضرور ہونی چاہیے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمیں خوشی ہے کہ دونوں ممالک میں باتیں ہوں گی لیکن ہم کشمیریوں کے بغیر ایسا ہو تو بالکل غلط ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگست 2019 میں بھارتی جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی واپس کیے بغیر پاکستان کو بھارت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرنے چاہییں۔