انٹرنیٹ کے پنڈورا باکس نے ہماری پوشیدہ علتوں کو جہاں عوام کے سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا وہیں اس برائی میں اضافے کا موجب بھی بنا۔ کسی بھی معاشرے میں اشرافیہ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ان کی سوچ بھلے جیسی بھی ہو زبان و بیان عامیانہ نہ ہوں گے۔ لیکن اکیسویں صدی میں جہاں اظہار کی آزادی نے سر اٹھایا وہیں اس آزادی کی آڑ میں نہ صرف عوام بلکہ مفکر اور فلسفی سے لے کر ایوان بالا اور ایوان زیریں میں براجمان عوامی نمائندوں نے اخلاقیات کی ایسی دھجیاں اڑائیں کہ جس کی توقع ایک ناخواندہ شخص سے بھی نہ کی جائے۔
پاکستانی سیاستدانوں نے گذشتہ چند روز میں یہ بات سب پر واضح کر دی کہ اس حمام میں ہم سب ننگے ہیں اور ردعمل کے طور پر ہمارے سوشل میڈیا کا جادو ایسا سر چڑھ کر بولا کہ الامان الحفیظ۔
یہ قضیہ شروع ہوا وزیراعظم کی اس تقریر سے جس میں انھوں نے بلاول بھٹو صاحب کے لیے ’صاحبہ‘ کا لفظ استعمال کیا۔ اس لفظ کی گونج دور دور تک سنائی دینے لگی، حزب مخالف کی جماعتوں نے کہا یہ لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا گیا جبکہ حکمران جماعت کا موقف ہے کہ یہ لفط انجانے میں غلطی سے ان کے منہ سے نکل گیا۔ اس موقف کے حق اور مخالفت میں ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پر بحث کا آغاز ہوا اور القابات، خطابات، نوازشات، تصاویر اور ٹرینڈز کی بھرمار ہو گئی۔
ٹوئٹر ٹرینڈز نے تو منٹو کی یاد دلا دی اس قدر سچائی سے تو شاید منٹو نے بھی معاشرے کی برائیوں کی تصویر کشی نہ کی ہو جس تندہی سے ہمارے نوجوانوں نے اپنی اپنی جماعت کے حق میں مورچے سنبھالے۔ کچھ لوگوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’صاحبہ‘ لفظ کی ادائیگی دراصل عورت ذات کو کمتر ظاہر کرنے کی کوشش ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ بلاول بھٹو کی توہین ہے۔ اس بابت وزیراعظم کے لیے ’مساجنسٹ‘ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا کہ انہیں یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ ایسا لفظ اپنی گفتگو میں لائیں۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا جو کوئی وزیر اعظم نہ ہو اس کے لیے اس کا استعمال آپ جائز قرار دے رہے ہیں۔ خیر بالآخر وزیر اعظم نے پارٹی کی تاسیس کے موقع پر اعتراف کیا کہ ان سے غلطی ہوئی تھی۔
تاہم اس سے قبل بحث میں اصل بات فراموش کر دی گئی کہ اس رحجان کا آغاز پاکستان کی سیاست میں کب ہوا اور کب تک جاری رہے گا۔ یہ عورت کی، مرد کی یا انسانیت کی تذلیل ہے۔ کیا اس کا ذمہ دار پورا معاشرہ ہے یا صرف سیاستدان؟ اگلے ہی روز بلاول بھٹو نے وزیراعظم کے لیے ’صاحبہ‘ کا لفظ استعمال کر کے حساب برابر کر دیا۔ اس حساب چکانے پر اعلیٰ جمہوری روایات کی علمبردار پارٹی پی پی کے رہنما بہت مسرور نظر آئے۔
ہر جماعت کا موقف یہ ہے کہ ہم نے تو کبھی عورت کی تذلیل یا مخالف کی پگڑی اچھالنے کی کوشش کی ہی نہیں۔ نون لیگ کے رہنما خواجہ آصف اور اسی جماعت میں کبھی شیخ رشید ہوا کرتے تھے جو بےنظیر بھٹو کے لیے اپنے جلسوں میں انتہائی قابل اعتراض گفتگو کیا کرتے تھے۔ اب وہی شیخ رشید بلاول کے لیے ’بلو رانی‘ جیسا بے ہودہ نام استعمال کرتے ہیں۔
قصہ مختصر کہ اکثر سیاستدانوں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔ اکثر نے ذاتی مفادات یا سیاسی وابستگی کی بنا پر سوشل میڈیا کا استعمال کیا اور اخلاقیات کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ کسی نے اس بات پر روشنی ڈالنا گوارا نہ کیا کہ ہماری سیاست میں طعنے کسنا، نام رکھنا، ذاتیات کی بنیاد پر سکینڈل بنانا، فحش تصاویر بنا کر منظر عام پر لانا اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے مخالفین خاص کر خاتون مخالف کو سیاست سے باہر کرنے کی کوشش پاکستانی سیاستدانوں کا وطیرہ رہا ہے۔ یہ محض پاکستان کا مسئلہ نہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس حوالے سے خاصی تنقید کا سامنا رہتا ہے۔
اگر صرف خواتین سیاستدانوں کی بات کریں تو ہر دور میں سیاست سے وابستہ خواتین کو مختلف حربوں سے تنگ کیا گیا۔ فاطمہ جناح سے آغاز کریں تو مادر ملت ہونے کے باوجود ان کو الیکشن میں انتہائی سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پدر شاہی معاشرے میں باقی سیاستدان خواتین کو کس قدر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ دنیا ترقی کر گئی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ منفی رجحانات ختم ہو جائیں گے تو یہ صرف خام خیالی ہے۔ سوشل میڈیا کے تیز دھار آلے نے سیاست کے ان منفی رحجانات کو مزید پالش کرکے دنیا کے سیاسی شوکیس پر ایک ٹرافی کی مانند سجا دیا ہے۔