جنوب مشرقی ایشیا کے ملک میانمار میں پولیس نے فوجی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والے مظاہرین پر فائرنگ کر کے کم سے کم 18 افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔
جھڑپوں میں درجنوں مزید افراد بھی زخمی ہوئے جبکہ اتوار کو مظاہرین پر حکام کے پرتشدد کریک ڈاؤن میں ایک ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے آفس کا کہنا ہے کہ اسے ’مصدقہ اطلاعات‘ موصول ہوئی ہیں کہ کم سے کم 18 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 30 زخمی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اسسٹنس ایسوسی ایشن آف پولیٹکل پرزنرز کی ایک رپورٹ کے مطابق وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ اتوار کو تقریباً ایک ہزار لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے 270 افراد کی شناخت کر لی گئی ہے۔
حراست میں لیے گئے افراد میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک رپورٹر بھی شامل تھے۔ 32 سالہ تھین زا کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ ہفتے کے صبح یانگون میں کئی افراد کے ساتھ مظاہرے کی کوریج کر رہے تھے۔
اس کے ساتھ فوجی بغاوت کے بعد گرفتار ہونے، فرد جرم عائد کیے جانے اور سزا سنائے جانے والے افراد کی مصدقہ تعداد 1132 ہو گئی ہے۔
گذشتہ ماہ کے آغاز میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے میانمار میں یہ اب تک کا سب سے ہلاکت خیز دن تھا۔
یانگون میں پولیس کی جانب سے اساتذہ کے احتجاج کو سٹن گرنیڈز کے ساتھ منتشر کرنے کی کوشش کے دوران ایک خاتون بھی ہلاک ہو گئیں۔ گو کہ ان کی بیٹی اور ساتھ کام کرنے والی معلمہ کے مطابق ان کی موت کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی۔
فوجی بغاوت کے بعد سے ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ فوجی بغاوت کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے حکومت کی سربراہ آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت کی قیادت کو گرفتار کر لیا تھا۔
فوج نے الزام عائد کیا ہے کہ نومبر 2020 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی ہے۔ ان انتخابات میں آنگ سان سوچی کی جماعت نے بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔ دنیا بھر کے ممالک نے میانمار میں ہونے والی اس فوجی بغاوت کی مذمت کی ہے۔
بدھ مت کے اکثریتی ملک کے پہلے مسیحی کارڈینل چارلیس موانگ بو نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’میانمار ایک میدان جنگ کی طرح ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یانگون کے مختلف مقامات پر پولیس نے سٹن گرنیڈز اور آنسو گیس کے استعمال کے باوجود مظاہرین کے منتشر نہ ہونے پر فائرنگ کر دی۔
مقامی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے مطابق ایک شخص جسے سینے پر گولی لگنے کے زخم کے بعد ہسپتال لایا گیا تھا نے ہسپتال پہنچنے کے بعد دم توڑ دیا۔
مقامی سیاست کیاؤ من ہٹیکے نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ پولیس نے جنوبی علاقے داوئی میں بھی مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
ایراوڈی آن لائن میڈیا ادارے کے مطابق منڈالے شہر میں بھی ایک شخص کو ہلاک کر دیا گیا ہے جہاں پولیس کا کریک ڈاؤن جاری تھا جبکہ ایک خیراتی ادارے نے وسطی علاقے باگو میں دو افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔
شہریوں اور میڈیا کے مطابق پولیس نے شمال مشرقی علاقے لاشیو اور جنوبی علاقے مئیک میں بھی کارروائیاں کی ہیں۔
فوجی جنتا کے سربراہ جنرل من انگ ہلائنگ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ حکام مظاہرین سے نمٹنے کے لیے کم سے کم طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس افراتفری میں پانچ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ فوج کا کہنا ہے کہ ایک پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوا ہے۔
تشدد کے واقعات میں حالیہ اضافہ یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد فوج کی مظاہرین اور اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے۔
میڈیا میں سامنے آنے والی تصاویر کے مطابق یانگون میں پولیس کی فائرنگ کے بعد کئی افراد کو خون آلود سڑکوں سے مدد دے کر منتقل کیا گیا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے سٹن گرنیڈز، آنسو گیس، ہوائی فائرنگ کا استعمال بھی کیا لیکن اس کے باوجود سینکڑوں مظاہرین نے دوپہر تک پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔
کچھ افراد نے مارچ جاری رکھا جبکہ کچھ اکٹھے ہو کر نعرے بازی کرتے رہے اور کچھ افراد رکاوٹیں لگاتے رہے۔
یانگون کے مظاہرے میں شامل ایک احتجاجی نیان ون شین کا کہنا تھا: ’اگر وہ ہمیں دھکیلیں گے تو ہم دوبارہ کھڑے ہوں گے۔ اگر وہ ہم پر حملہ کریں گے تو ہم دفاع کریں گے لیکن ہم کبھی فوجی بوٹوں کے سامنے نہیں جھکیں گے۔‘
اتوار کو برطانوی حکومت نے اس حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مظاہرین کے خلاف تشدد کا بڑھتا استعمال ایک گھناونا فعل ہے۔ برطانیہ نے میانمار کی فوجی قیادت سے ملک میں جمہوریت بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
وزارت خارجہ کی ترجمان مطابق: ’برطانیہ نے اس حوالے سے اقدامات لیتے ہوئے انسانی حقوق کی پامالیوں پر میانمار کے نو فوجی عہدیداروں کے خلاف پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ہمارا موقف اس حوالے سے بہت واضح ہے کہ اس تشدد کو بند ہونا چاہیے اور جمہوریت کو بحال ہونا چاہیے۔‘
© The Independent