فیس بک نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ وہ یکم فروری کو میانمار کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتتدار پر قبضہ کرنے والی فوج کے تمام اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ کمپنیوں کے اشتہاروں پر بھی پابندی عائد کر رہی ہے۔
فیس بک کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ کمپنی میانمار میں بغاوت کے بعد کے حالات کو ایک ’ہنگامی صورت حال‘ کے طور پر لے رہی ہے۔
کمپنی نے وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ یہ پابندی بغاوت کے بعد سے ہونے والے ان واقعات کی وجہ سے عائد کی جا رہی ہے جن میں ’مہلک تشدد‘ بھی شامل ہے۔
بغاوت کے بعد سے ہی فیس بک فوج سے وابستہ میواڈی ٹی وی اور سرکاری ٹیلی ویژن براڈکاسٹر ایم آر ٹی وی سمیت فوج کے دیگر اکاؤنٹس پر پہلے ہی پابندی عائد کرچکی ہے۔
یہ پابندی فیس بک کی ملکیتی کمپنی انسٹاگرام پر بھی لاگو کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو 2017 میں اس وقت زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جب انسانی حقوق گروپوں نے ان کمپنیز پر الزام لگایا تھا کہ وہ میانمار کی مسلم روہنگیا اقلیت کے خلاف نفرت انگیز مواد روکنے کے لیے خاطر خواہ عمل کرنے میں ناکام رہے تھے۔
برمی فوج نے اسی سال ایک پرتشدد آپریشن شروع کیا تھا جس سے سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان کی اکثریت اب بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہے۔
میانمار کی سکیورٹی فورسز نے آپریشنز میں کئی دیہاتوں کو نذر آتش کیا، عام شہریوں کا قتل عام اور اجتماعی عصمت دری میں ملوث رہے۔ عالمی عدالت برمی فوج کی جانب سے نسل کشی کے جرم کی بھی تحقیق کر رہی ہے۔
2018 میں فیس بک نے میانمار کے کئی اعلی فوجی رہنماؤں کے اکاؤنٹس پر پابندی عائد کردی تھی جن میں سینئر جنرل من آنگ ہیلنگ بھی شامل ہیں۔ یہ وہی فوجی جنرل ہیں جنہوں نے حالیہ بغاوت کی قیادت کی اور اس دوران ملک میں جمہوریت کی علمبدار سمجھے جانے والی رہنما آنگ سان سوچی کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کی نیشنل لیگ پارٹی کی منتخب حکومت کو بے دخل کردیا۔ جنرل من آنگ ہیلنگ اس وقت عبوری حکومت ’جنتا‘ کی سربراہی کر رہے ہیں۔
فوج نے اقتتدار پر قبضہ کرنے کے بعد فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو روکنے کی کوشش کی لیکن اس کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔ ایک ہفتہ سے زیادہ عرصے تک فوج نے انٹرنیٹ تک رسائی بھی بند کردی ہے۔