ہمیں 2002 سے 2007 تک کئی بار، اور پھر اس کے بعد بھی گاہے بگاہے سابق قبائلی علاقوں کے چکر لگانے کا موقع ملتا رہا۔ کبھی فوج کے ساتھ تو کبھی پاکستانی طالبان کے ہمراہ، کیوں کہ اس زمانے میں اکیلے جانے کا تو کبھی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔
اِس مرتبہ جب حکومت نے بلا روک ٹوک سابق قبائلی علاقوں تک رسائی آسان کی تو دل چاہا کہ اس سنہرے موقعے کا جشن منایا جائے اور جشن بھی ایسا کہ منہ اٹھا کر چل دیا جائے، نہ کسی سے اجازت لینے کی ضرورت اور نہ کسی کو بتانے کی حاجت۔
لہٰذا ہم نے ماضی کی یادیں تازہ کرنے کے لیے اپنے سفر کا آغاز ماضی کے قبائلی علاقوں کی سب سے شمال میں واقع سابق ایجنسی باجوڑ سے کیا۔
ہم تو ہم، اِن دنوں وزیر اعظم عمران خان بھی باقاعدگی سے ضم شدہ اضلاع کے دورے کر رہے ہیں۔ انہیں بھی شاید ہماری طرح ایسا کرنے کی اب اجازت ملی ہے۔ پہلے صدر تو کیا وزیرِ اعظم اور وزیر اعلیٰ تک کے لیے یہ خطہ علاقہ غیر تھا۔ سکیورٹی کلیئرنس نہ صحافی کو نصیب ہوتی تھی اور نہ وزیر کو۔
خیر، جو ہوا سو ہوا، اس کا ذکر کیا۔ ہم تو ان حالات میں بھی منہ اٹھائے چل پڑتے تھے اور پولیٹکل ایجنٹ کی ڈانٹ سنا کرتے کہ ’میری اجازت کے بغیر آپ نے وزیرستان میں قدم کیوں رکھا؟‘
اب ہم کیا بتاتے کہ بھائی قدم آخر قدم ہے کہیں بھی پڑ سکتا ہے۔
خیر اس مرتبہ قدم باجوڑ میں پڑے۔ موسم بہار میں باجوڑ جانے کا لمبا لیکن بہترین راستہ براستہ مالاکنڈ ہے۔ کیا ہریالی اور کیا ہی نظارے۔ اب اس میں بھی یہاں کے لوگ اور حکومت سیاحوں کو نہ مائل کر سکیں تو افسوس ہی ہو گا۔
بحیثیت صحافی آزادی ملنے کے بعد دوسری بڑی اہم تبدیلی جو وہاں محسوس کی وہ اسلحے کا نہ دکھائی دینا تھا۔ نہ کہیں کوئی کلاشنکوف نہ کوئی بندوق۔ صرف سکیورٹی اہلکار ہی مسلح پائے۔ ہر جانب بہار کی ہریالی، ہرے پہاڑ، گندم کی فصلیں اور صاف پانی کے جھرنے۔
اب چلتے پھرتے احساس ہی نہیں ہوتا ہے کہ یہاں کبھی شدت پسندی کی خاردار جھاڑیاں بھی اُگی تھیں۔ نہ قدم قدم پر چوکیاں اور نہ کوئی پوچھ گچھ۔ پولیس، ماضی کے لیویز اہلکار، ہر آنے جانے والے کو دیکھتے ضرور ہیں مگر پوچھتے کم ہیں۔
لیکن اصل تبدیلی لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ زیادہ پُرسکون لیکن زیادہ پُرتجسس معلوم ہوئے۔ ہر کوئی خصوصاً نوجوان گذشتہ برس اصلاحات کے شجر سے پھل پھول کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ لیکن سب اسلام آباد اور پشاور کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ کوئی انہیں اپنی طاقت کا اندازہ لگانے کا نہیں کہہ رہا۔
حکومت دیر سے سہی اٹھی ہوئی ہے، انگڑائیاں لے رہی ہے اور اپنے اعلانات پر عمل درآمد میں وقت لے گی۔ تو پھر ایسا کیا ہے جو قبائلی خود کر سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں چند مفت مشورے ہماری طرف سے حاضر ہیں:
1۔ اپنا تاثردرست کریں
صدیوں سے قبائلی عوام کو سنگلاخ پہاڑوں کے نڈر، بہادر سپوت کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ملک میں ان کی شبیہ نہ صرف جنگجو کی بنی ہوئی ہے بلکہ انہیں اسی طرح استعمال بھی کیا جاتا رہا ہے۔
اب چیلنج یہ ہے کہ ایک قبائلی کو لڑاکا نہیں بلکہ پڑھا لکھا، مہذب، باشعور اور پرامن انسان کے طور پر پیش کرنا ہے۔ جنگ انڈیا کے ساتھ مشرقی سرحد پر اور جذباتی ہر مرتبہ صرف قبائلی ہی کیوں ہوں؟ بہت لڑائی، مار کٹائی ہو چکی، اب ترقی کی بات کریں، تعلیم کی بات کریں۔
2۔ اپنے وسائل کا بہتر استعمال
ہر قبائلی نے حکومت یہ کر دے وہ کر دے کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں لیکن بہت کچھ خود بھی کیا جا سکتا ہے۔
سفر کے دوران درجنوں ٹرک سنگ مرمر کے کئی کئی ٹن وزنی پتھر اٹھائے رینگ رہے ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کیوں اب بھی بلاسٹنگ کے ذریعے سنگِ مرمر نکالا جا رہا ہے، جس میں زیادہ تر پتھر ضائع ہو جاتا ہے۔
جب ہم نے پوچھا کہ کیا یہاں ڈائمنڈ کٹنگ کو فروغ دیا جا رہا ہے؟ بتایا گیا کہ محض دو کانوں میں ایسا ہو رہا ہے باقی سب دھمادھم دھم!
3- ایک اور کاغان؟
ان علاقوں میں کہیں بھی چلے جائیں، گھومتے پھرتے اس بات کا سب سے زیادہ احساس ہوتا ہے کہ یہاں سیاحت کا زبردست امکان ہے۔ تو اچھے ہوٹل اور ریستوران کب شروع ہوں گے تاکہ مری، سوات اور کاغان کے علاوہ بھی سیاحوں کو تیسرا مقام دیکھنے کو ملے؟
تو کیا جشن باجوڑ اور اس کے بعد مہمند وغیرہ منعقد کیے جانے چاہیں یا نہیں؟
مقامی قبائل کو آگے آنا ہو گا اور باقی پاکستانیوں کو ثابت کر کے دکھانا ہو گا کہ وہ جنگجو نہیں بلکہ بہترین مہمان نواز بھی ہیں۔اب یہ ماضی کا علاقہ غیر نہیں رہا بلکہ سب کے لیے علاقہ خیر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون انڈپینڈنٹ اردو پاکستان کی مغربی سرحد پر واقع سابق قبائلی علاقوں کے گذشتہ برس صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام پر ہفتہ وار سیریز کی پہلی قسط ہے جس میں وہاں حالات میں بہتری کیسے لائی جاسکتی ہے پر بات ہوگی۔