پاکستان: بڑھتی ’شدت پسندی‘ کے خلاف فوجی آپریشن ’بدر‘ کتنا مختلف ہو گا؟

سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ’پاکستان فوج نے رواں سال، 2025 کے رمضان کی مناسبت اور غزوہ بدر کے جذبے کے تحت، ’آپریشن بدر‘ کے نام سے عسکری کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔‘

پاکستان فوج کے اہلکار 14 اکتوبر 2024 کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر اسلام آباد میں گشت کرتے ہوئے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستانی فوج نے رواں ماہ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دوبارہ سر اٹھاتی ’شدت پسندی‘ کے خلاف جس آپریشن کا اعلان کیا تھا اس کے تحت کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔

سکیورٹی حکام نے اس آپریشن کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اسے ’بدر‘ کا نام دیا گیا ہے۔

سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ’پاکستان فوج نے رواں سال 2025 کے رمضان کی مناسبت اور غزوہ بدر کے جذبے کے تحت، ’آپریشن بدر‘ کے نام سے عسکری کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔‘

تاہم وفاقی حکومت واضح کرچکی ہے کہ وہ کوئی نیا آپریشن شروع کرنے نہیں جا رہی ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے واضح کیا تھا کہ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں کسی نئے آپریشن کے آغاز کی کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی ایسا کوئی منصوبہ زیر غور ہے۔

جبکہ دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے بھی، دو سال تک موسم بہار کے کسی آپریشن کا اعلان نہ کرتے ہوئے اس سال اسے ’آپریشن خندق‘ کا نام دے کر اس کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کارروائی کے تحت عسکری اہداف کو نشانہ بنائیں گے۔

پاکستان کی جانب سے ’شدت پسندوں‘ کے خلاف کارروائی میں تیزی ایک ایسے وقت لائی جا رہے ہیں جب پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق خان نے کابل کا دورہ کیا جس میں خیال ہے کہ افغان طالبان سے حمایت کا تقاضہ کیا گیا ہو گا۔  انہوں نے ہفتے کو کابل میں ہوئی افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ملاقات کی تھی۔

تاہم فریقین کی جانب سے باضابطہ بیانات میں فوجی اموار پر کست گفتگو کا ذکر نہیں کیا گیا۔

آپریشن بدر کے خدوخال کیا ہیں؟

سکیورٹی حکام کے مطابق ’ان عسکری کارروائیوں کے چار بنیادی ستون ہیں: ان دہشت گردوں کے سرغنوں اور رہنماؤں کو ڈھونڈ کے جہنم واصل کیا جائے گا، جو ہمارے امن پسند عوام کے خلاف فساد برپا کر رہے ہیں۔ سرحدی کنٹرول مزید سخت کیا جائے گا تاکہ افغانستان میں چھپے دشمنوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملایا جا سکے۔

’امن پسند عوام اور محب وطن قبائل کو متحرک کیا جائے گا تاکہ وہ ان خوارج کے خلاف یکجا ہو جائیں۔ فضائی نگرانی اور برق رفتار فضائی اور زمینی کارروائیاں کی جائیں گی تاکہ ان دہشت گردوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال کر کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر متعلقہ اداروں سے معلومات حاصل کی اور ماضی میں کیے گئے آپریشنز کا احاطہ بھی کیا ہے۔

سال 2001 میں امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملے کے بعد ’دہشت گردی کی جنگ‘ اس خطے میں شروع ہوئی جب امریکہ نے پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان پر القاعدہ کی موجودگی کی اطلاعات پر حملہ کیا۔

اس وقت امریکہ نے پاکستان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کی درخواست کی تھی جو پاکستان نے اپنے قومی مفاد میں قبول کی لیکن اس کا خمیازہ پاکستان کو اپنے ملک میں دہشت گردی کی صورت میں بھگتنا پڑا جس میں اب تک 80 ہزار سے زائد جانیں جا چکی ہیں اور ان مرنے والوں میں عام عوام کے ساتھ ساتھ فوجی اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

پاکستان میں ’شدت پسندی‘ سے نمٹنے کے لیے گذشتہ 24 سالوں میں پاکستان نے پانچ بڑے اور سینکڑوں چھوٹے فوجی آپریشن کیے ہیں۔

موجودہ حالات کے تناظر میں نیا فوجی آپریشن کتنا فائدہ مند ہو گا؟ دوبارہ سر اٹھاتی ’شدت پسندی‘ کا سدباب کیسے ہو گا؟

گذشتہ ہفتے قومی سلامتی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ’ہمیں گورننس بہتر کرنے اور مملکت پاکستان کو ہارڈ سٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے، ہم کب تک ایک سوفٹ سٹیٹ کی طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے۔‘

کیا آپریشن میں بین الاقوامی حمایت حاصل ہو گی؟

سینیئر دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ ’ماضی کے آپریشن اور اس آپریشن میں یہ فرق ہے کہ ماضی میں جب عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن ہوئے تو اس وقت افغانستان کے اندر طالبان کی حکومت نہیں تھی، اور اب افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے۔

’یہ ایک مختلف مسئلہ بنے گا کیونکہ یہ دہشت گرد واپس افغانستان بھاگیں گے جہاں انہیں افغان طالبان پناہ دیں گے جو پاکستان کے لیے یقینی طور پر مسائل پیدا کرے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ایک ہی وقت میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں یہ معاملات شروع ہو رہے ہیں تو بڑے پیمانے پر ملک متاثر ہو گا۔ اس آپریشن سے چین کے سرمایہ کاری اور سی پیک کے منصوبے بھی متاثر ہو سکتے ہیں کیونکہ جب عسکری کارروائیاں تیز ہوں گی تو دہشت گرد ان منصوبوں پر حملہ کر سکتے ہیں۔

’اس کے علاوہ معیشت پر بھی اثر ہو سکتا ہے۔ دہشت گرد بڑے شہروں میں بھی حملے کر سکتے ہیں۔ اس آپریشن کے لیے بین الاقوامی حمایت لینا ضروری ہو گا۔ کیونکہ ماضی میں بین الاقوامی طاقتیں افغانستان میں موجود تھیں تو ہمیں ان کی حمایت بھی حاصل تھی لیکن اس بار حمایت کیسے حاصل ہو گی یہ دیکھنا ہو گا۔‘

ڈاکٹر قمر چیمہ مزید کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی یہ آپریشن مکمل ہو گا تو مقامی عوام کا مینڈیٹ ان کو دینے کی بھی ضرورت ہو گی۔ جن علاقوں میں آپریشن ہو گا وہاں رہنے والے عام عوام کی زندگیاں بہتر کرنا ہوں گی تاکہ دہشت گرد عناصر دوبارہ اپنی جگہ وہاں نہ بنا سکیں۔‘

دہشت گردی کی تیسری لہر کے لیے آپریشن بدر:

دفاعی صحافی و تجزیہ کار سمیرا خان اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی حدود میں نہ صرف فوجی آپریشن ہوئے بلکہ آپریشنز کے اختتام پر کچھ امن معاہدے بھی ہوئے ہیں۔ آپریشن خیبر بھی 2011 سے 2014 کے دوران لانچ کیا گیا۔‘

سمیرا خان کے مطابق ’دہشت گردی کی پہلی لہر نائن الیون جبکہ سی پیک معاہدے کے بعد دہشت گردی کی دوسری لہر شروع ہوئی تھی اور حال ہی میں تیسری لہر نے زور پکڑا ہے۔ جس کے لیے فوجی آپریشن تیز کر دیا گیا ہے۔‘

دفاعی تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا ہے کہ ’آپریشن بدر ایک مخصوص آپریشن ہے جو بنیادی طور پر ٹی ٹی پی کے آپریشن خندق کا جواب ہے۔ یہ اس کی جوابی کاررائیوں کے طور پر کیا جائے گا اور یہ پچھلے آپریشن کا ہی تسلسل ہے۔‘

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف پہلا آپریشن کب ہوا؟

آپریشن المیزان

نائن الیون کے بعد جب پاکستان عسکریت پسندی کی لپیٹ میں آیا تو 2002 میں سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے دور میں ’آپریشن المیزان‘ شروع کیا گیا جس کا مقصد خیبر پختونخوا سے متصل پاکستان افغانستان سرحدی علاقے بالخصوص جنوبی وزیرستان میں القاعدہ اور طالبان عناصر کو نشانہ بنانا تھا۔

اس وقت پاکستان افغانستان سرحد پر باڑ نہ ہونے کی وجہ سے عسکریت پسندوں عناصر کی نقل و حرکت عام تھی۔

امریکہ کے افغانستان میں حملے اور بمباری کے نتیجے میں عسکریت پسند عناصر کو پاکستان کی طرف بھاگنا اور پناہ لینا آسان تھا جس کے بعد ان عناصر کو نشانہ بنانے کے لیے آپریشن المیزان لانچ کیا گیا جو 2006 تک جاری رہا۔

آپریشن راہ حق:

خیبر پختونخوا کے علاقے سوات میں عسکریت پسند عناصر پناہ اور کنٹرول لینے میں کامیاب ہوئے تھے جس کے بعد عسکریت پسند عناصر نے وہاں پر لڑکیوں کے سکول بند کیے اور حملے بھی کیے۔

طالبان نے ان علاقوں میں پولیس سٹیشنز اور حکومتی عمارتوں پر قبضہ بھی کیا تھا۔

سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی نے فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد سال 2007 میں سوات میں ’آپریشن راہ حق‘ کا آغاز کیا تھا جس کے بعد طالبان مرکزی عمارتوں سے بھاگ کر سرحدی پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے، لیکن اب بھی عسکریت پسندی اس علاقے سے ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ فوجی آپریشن کے ردعمل میں سال 2007 سے سال 2009 کے دوران پاکستان میں لاتعداد خودکش دھماکے ہوئے جن کا نشانہ صرف فوجی اہلکار نہیں بلکہ عام عوام بھی تھے۔

مارکیٹوں، مسجدوں اور ہر عوامی اجتماع حتیٰ کہ یونیورسٹیز پر بھی خودکش حملے ہوئے جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جان سے گئے۔ اس دوران ’آپریشن زلزلہ‘ اور ’آپریشن شیر دل‘ بھی کیے گئے۔

آپریشن راہ نجات اور آپریشن راہ راست

آپریشن راہ حق کے بعد 2008 میں ’آپریشن راہ راست‘ کا آغاز کیا گیا، جس کا مقصد حکام کے مطابق قبائلی علاقوں میں طالبان اور ان کے ٹھکانوں پر حملے کرنا تھا۔

آپریشن راہ نجات میں سوات اور متصل علاقوں سے طالبان کے گڑھ ختم کیے گئے اور انہیں وہاں سے بے دخل کیا گیا۔ 2009 میں آپریشن راہ راست شروع کیا گیا جس میں ان تمام قبائلی علاقوں میں ایک ہزار سے زائد عسکریت پسند مارے گئے اور سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

کالعدم ٹی ٹی پی نیٹ ورک کو وہاں ’بلکل کمزور‘ کر دیا گیا جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور ان کی لیڈرشپ افغانستان بھاگ گئی۔

آپریشن راہ راست کے دوران قبائلی علاقوں کی مقامی آبادی کو بھی بڑی تعداد میں اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا تھا۔

آپریشن ضرب عضب

جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ریٹائر ہونے کے بعد جنرل راحیل شریف نے پاکستانی فوج کی کمان سنبھالی۔ سال 2014 میں آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا جس میں سو سے زائد بچے جان سے گئے، جس کے بعد آپریشن ضرب عضب کا اعلان کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضرب عضب میں پہلے ان ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جو آبادیوں سے دور تھے۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور حقانی نیٹ ورک کے شمالی وزیرستان میں موجود محفوظ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

آپریشن ردالفساد:

سابق عارمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب پاکستانی فوج کی کمان سنبھالی تو آپریشن ضرب عضب کے مکمل ہونے کے بعد فروری 2017 میں ’آپریشن ردالفساد‘کا آغاز کیا۔

آپریشن ضرب عضب میں آبادی سے دور عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بعد آپریشن ردالفساد میں ان کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ اس آپریشن کے بڑے اہداف میں ملک کے مختلف علاقوں میں قائم عسکریت پسند عناصر کے ’سلیپر سیلز‘ اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا تھا۔

یہ آپریشن دیہی و شہری تمام علاقوں میں کیا گیا اور اس دوران حکام کے مطابق عسکریت پسندوں کی منی لانڈرنگ روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے گئے اور پاکستان افغانستان سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کر کے اس پر عمل شروع کیا گیا تھا۔

آپریشن عزم استحکام

گذشتہ برس جون 2024 میں قومی سلامی کے اجلاس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے سی پیک منصوبوں کی تکمیل اور ملک میں جاری دیگر ترقیاتی منصوبوں کی ہر طرح کی حفاظت کے لیے ’آپریشن عزم استحکام‘ کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس آپریشن کی ذمہ داری صرف فوج پر نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے۔

آپریشن عزم استحکام صرف فوجی کارروائیوں پر مشتمل نہیں بلکہ اس کا اصل مقصد سوشل میڈیا پر ریاست کے خلاف ہر اس بیانیے کا مقابلہ کرنا تھا جو ملک میں عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار سمیرا خان کہتی ہیں کہ ’آپریشن عزم استحکام فوجی آپریشن سے زیادہ ایک ویژن کا نام ہے جس کا مقصد ملک میں اندرونی استحکام کو قائم رکھنے کے لیے مختلف اقدامات کرنا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان